359۔ عزت نفس
مَنْ كَرُمَتْ عَلَيْهِ نَفْسُهٗ، هَانَتْ عَلَيْهِ شَهَوَاتُهٗ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۴۴۹)
جس کی نظر میں خود اپنے نفس کی عزت ہوگی وہ اپنی نفسانی خواہشوں کو بے وقعت سمجھے گا۔
انسان عزت و کرامت کی راہیں دین و عقل کی راہنمائی سے طے کرتا ہے۔ نفس کی خواہشات انسان کی عقل کے لیے زنجیر راہ بن جاتی ہیں۔ خواہش پرست انسان خواہشوں کا ایسا قیدی بن جاتا ہے کہ جس سے آزادی مشکل ہو جاتی ہے۔ اس لیے کسی حکیم سے پوچھا گیا کہ اس دنیا میں آپ کی بڑی خواہش کیا ہے تو جواب دیا کہ بس خواہش یہی ہے کہ کسی چیز کی خواہش پیدا نہ ہو۔
اپنے نفس و ذات کو ان بے جا خواہشوں سے پاک رکھنا اتنا اہم ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں قسمیں کھا کر فرماتا ہے کہ جس نے نفس کو پاک کر لیا وہ فلاح پا گیا اور کامیاب ہو گیا۔ نفس ہر وقت کوئی نہ کوئی خواہش رکھتا ہے کبھی جائز تو کبھی ناجائز۔ کبھی اس کے تقاضے انسانیت کی فطرت کے مطابق ہوتے ہیں اور کبھی دوسرے انسانوں کے نقصان کا سبب ہوتے ہیں۔ امیر المؤمنینؑ نے ان خواہشات کا ذکر کیا ہے جو جائز ہیں جیسے لذیز کھانے کی طلب، عمدہ لباس، زیادہ آرام کی تمنا۔ آپؑ کے فرمان کے مطابق یہ چیزیں بھی بزرگ شخصیات کو پسند نہیں تھیں۔
امیرالمؤمنینؑ کا نہج البلاغہ میں یہ کہنا کہ میں نے دو روٹیوں اور دو چادروں پر وقت گزارا ہے۔ یہ انہی جائز خواہشوں سے دوری کا اعلان ہے۔ اگر جائز خواہشات بزرگی کی رکاوٹ ہوتی ہیں تو ناجائز خواہشیں کتنی قابل مذمت ہوں گی۔
امیرالمؤمنینؑ یہاں فرما رہے ہیں کہ جو اپنی شخصیت اور بزرگی کی حفاظت کرتا ہے خواہشات اس کے لیے گھٹیا اور حقیر چیز بن جاتی ہیں اور وہ ان سے دور ہو رہتا ہے ۔ ان خواہشات سے نجات اور عزت و کرامت کو بچانے کے لیے صبر و تحمل کی ضرورت ہوتی ہے جو بزرگ صفت لوگوں میں یقیناً موجود ہوتا ہے۔ وہ اسی کے سہارے سے خواہشوں کو شکست دے کر بزرگی پا لیتے ہیں۔