360۔ مذاق کا نقصان
مَا مَزَحَ امْرُؤٌ مَزْحَةً، اِلَّا مَجَّ مِنْ عَقْلِهٖ مَجَّةً۔ (نہج البلاغہ حکمت ۴۵۰)
کوئی شخص ہنسی مذاق نہیں کرتا مگر یہ کہ اسی قدر اپنی عقل کا ایک حصہ الگ کر دیتا ہے۔
انسان جب کسی دوسرے انسان کی خوشی و مسرت کا سبب بنتا ہے تو وہ قابل تعریف ہو جاتا ہے اور اگر کسی کا دل دکھائے تو وہی قابل مذمت ہوتا ہے۔ مزاح ایک ایسا عمل ہے جس سے دوسرے انسانوں کی ہنسی کا ذریعہ نکالا جا سکتا ہے ایسی صورت میں یہ مزاح قابل تعریف ہے اور رسول اللہؐ سے بھی اس قسم کا مزاح منقول ہے۔
مگر مزاح ہی کے نام سے بارہا دوسروں کی دل شکنی ہوتی ہے آزار و ایذاء کا سبب بنتی ہے۔ انتقام کی بو آتی ہے اور کبھی مزاح کے نام سے بات غیبت و تہمت تک پہنچ جاتی ہے۔ گھٹیا قسم کے مسائل درمیان میں لائے جاتے ہیں۔ اردگرد کے لوگ ممکن ہے ہنسیں مگر جس سے مزاح کیا جا رہا ہے اس کے دل دکھنے کا سبب بنتا ہے۔ امیر المؤمنینؑ اسےخلاف عقل فرما رہے ہیں یعنی مزاح مزاح ہی کی حد تک ہو، اس میں توہین و تکلیف کا پہلو نہ ہو تو اچھی چیز ہے اور حد سے زیادہ ہو تو قابل مذمت ہے اور کئی بار کسی کی ہلاکت و بربادی کا سبب بن جاتی ہے۔
مزاح کے انداز میں اگر دہشت پھیلائی جا رہی ہو، جیسے اپریل فول کا تصور ہے تو یہ صحیح نہیں۔ بعض اوقات مزاح سے خود انسان کی توہین ہو جاتی ہے۔ بڑا آدمی مثلاً استاد شاگرد سے مزاح کرتا ہے تو ایک وقت شاگرد کی بھی زبان سے ہتک آمیز الفاظ مزاح ہی کے انداز میں نکل سکتے ہیں۔ بعض حکماء نے کہا ہے کہ مزاح نہ کرو ورنہ سامنے والا آپ سے جسارت کرے گا، بے باک ہو جائے گا اور توہین کا سبب آپ خود ہوں گے۔