361۔ غیبت
اَلْغِيْبَةُ جُهْدُ الْعَاجِزِ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۴۵۱)
غیبت کرنا کمزور کی آخری کوشش ہوتی ہے۔
غیبت یعنی کسی کی غیر موجودگی میں اس کی وہ کمزوریاں اور برائیاں بیان کرنا جنھیں وہ مخفی رکھنا چاہتا ہے اور اس کے ان عیبوں کو اگر اس کے سامنے بیان کیا جائے تو اسے برا لگے۔ مثلاً کسی نے چوری کی اب اس کی سزا اسے عدالت دے گی اور عدالت اگر گواہ کے طور پر بلائے تو چوری کی اطلاع رکھنے والے کو گواہی دینی چاہیے۔ مگر اسے چوری کی سزا مل گئی یا جن کی چوری کی تھی ان سے معاملہ طے ہو گیا، اب اگر اس کی عدم موجودگی میں اطلاع رکھنے والا اسے چور کہ کر پکارتا ہے تو یہ غیبت ہوگی۔
قرآن مجید میں اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ امیر المؤمنینؑ نے غیبت کرنے والے کو عاجز و پست شخص قرار دیا ہے۔ اس فرمان سے انسان کی عزت و مقام کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ آپؑ کے مطابق ایسا عمل و قول جس سے کسی خطاکار کی عدم موجودگی میں توہین ہو رہی ہو، یہ حقیقت میں غیبت کرنے والے کی اپنی کمزوری کا اور گھٹیا پن کا اظہار ہے۔
غیبت اکثر وہی لوگ کرتے ہیں جو کسی سے حسد یا انتقام کی وجہ سے اس کی عزت کو قبول نہیں کرتے اور نہ اس مقام کو اپنی محنت سے پا سکتے ہیں۔ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس کے عیبوں کو دوسروں کے سامنے بیان کریں تاکہ ان کا مقام لوگوں کی نگاہ میں گرے ۔سمجھدار آدمی غیبت کرنے والے کی پستی سے آگاہ ہوگا۔ اسلام کسی خطاکار کو پیٹھ پیچھے خطاکار کہنے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ انسانی حقوق و احترام کی اہمیت کا بیّن ثبوت ہے۔ یہ دوسرے انسان کے حق کی پامالی ہے اب جب تک وہ انسان اس عیب بیان کرنے کو یعنی غیبت کو معاف نہیں کرے گا، اللہ تعالیٰ بھی معاف نہیں کرے گا۔
یہ اس صورت میں ہے جب مذکورہ شخص میں عیب پایا جاتا ہے اور اسے بیان کیا جائے اور اگر وہ عیب جو اس پر لگایا جا رہا ہے وہ اس میں نہ ہو تو یہ تہمت و بہتان ہے، جو الگ گناہ ہے۔ غیبت کا معاشرتی نقصان بھی ہوگا کہ لوگوں کا ایک دوسرے پر اعتماد ختم ہوگا اور اخوت و دوستی میں خلل واقع ہوگا اور یُوں اجتماعی معاملات سست روی کا شکار ہوں گے۔