مقالاتنہج البلاغہ مقالات

کلمات قصار ۲، ۳ اور ۴ کی تشریح

تحریر: گوہر عباس

مقدمہ

ہر قوم و ملت کا یہ شیوہ ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کے اقوال کو غنیمت سمجھتی ہے زندگی کے ہر موڑ پر یہ اقوال شمع راہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور کیوں نہ ہو  وہ ایک عمر دنیا کے سرد و گرم کو جھیلنے کے بعد ان کے دامن تجربوں سے مالا مال ہو چکے ہوتے ہیں اب ان کی باتیں ان تجربوں سے چھن نکلتی ہے تو عقلمند تو وہی ہے جس نے ان موتیوں کو چن لیااور اپنی عمر کے کاروان کو ان تجربوں سے  آگے کا سفر شروع کرتا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام نے اپنے دلبند کو نصیحت کرتے ہوئے اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے  اس سے پہلے کہ تم اس وادی میں قدم رکھو جس کو صاحبان تجربوں نے تم سے پہلے سختیاں جھیل کر  زیر و رو کیا اور ان کی اچھائیوں اور برائیوں کو گزارش کرکے تمہیں دوبارہ کاری سے بے نیاز کر دیا ہے ۔

میرے لال یہ صحیح ہے کہ میں نے قدیم لوگوں کے  برابر زندگی نہیں کی لیکن ان کے کردار پر گہری نظر رکھی اور ان کی خبروں کا خوب مطالعہ کیا اور ان کے آثار میں اس طرح سیر و سیاحت کی کہ نہ صرف یہ کہ خود انہیں کا ایک فرد بن گیا بلکہ ان کی ابتدا اور انتہاسب کچھ میری نظروں کے سامنے ہے ۔

ان کی تاریخوں کا مطالعہ ایسا ہو گیا ہوں کہ سمجھو کہ ان کی اول سے آخر تک ان کے ساتھ رہا ہوں۔

امیر الکلام کے اس مجموعے کو جسے سید رضی نے اپنے ذوق انتخاب سے ہزاروں شہ پاروں سے چن لیا تھا آج قرآن کریم کے بعد سب سے زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ سید رضی نے جس ذوق کو ملحوظ خاطر رکھ کرکے اپنے چمن کو سجایا تھا اسی مناسبت سے اس کا نام نہج البلاغہ رکھا ، جس نہج البلاغہ نے سید کی بلاغتی پیاس کو سیراب کیا آج وہی نہج البلاغہ دنیا کے ہر علمی میدان کو سیراب کر رہا ہے۔

نہج البلاغہ تین حصوں پر مشتمل ہے پہلا حصہ ان خطبات پر مشتمل ہے جن کو مولا نے خطاب کیا ہے، دوسرا حصہ مولا کے خطوط پر مشتمل ہے، تیسرا حصہ مولا کے ان موجز اور مختصر کلام پر مشتمل ہے جو محاورے، ضرب المثل وغیرہ کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔

اس مقالے میں امام علی علیہ السلام کے تیسرے حصے کے صرف دوسرے، تیسرے اور چوتھے کلام کی تشریح کی گئی ہے۔

قصار نمبر2:

قال علیه السلام: ازری بنفسه من استشعر الطمع، و رضی بالذل من کشف عن ضره، و هانت علیه نفسه من امر علیها لسانه

امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: جس نے لالچ کو اپنا شعار بنا لیا اس نے خود کو حقیر کر لیا، جس نے اپنی پریشانیوں کوظاہر کر دیا وہ اپنی ذلت اور رسوائی پر راضی ہو گیا،جس نے زبان کو اپنے اوپر حاکم بنایا اس نے خود کو ذلیل کیا۔

کلمات قصار کا یہ دوسرا حکیمانہ قول ہے جس میں امام نے تین بری خصلتوں اور اس کے آثار کے بارے میں ملموس حقائق کی طرف اشارہ کیا ہے۔

ازری بنفسه من استشعر الطمع

پہلی خصلت یہ ہے کہ جس نے بھی لالچ کو اپنے گلے سے لگا لیا اس نے خود کو حقیر کر لیا ، امام کا یہ قول ایک ایسی حقیقت کی طرف اشارہ کر رہاہے جس کو انسان معاشرہ میں رہ کر اچھی طرح مشاہدہ کر تا ہے۔ لالچ انسان کو ہر پست کام کرانے کے لئے امادہ کر دیتاہے ، لالچی آدمی سے ایسی حرکتیں سرزد ہوتی ہیں کہ ہر دیکھنے والا تعجب کرے  ایسا ہی ایک واقعہ عرب کے مشہور لالچی کے بارے میں ملتا ہے اشعب نام کا یہ لالچی جب راستہ چلتا تھا تو اپنے دامن کو ہاتھوں میں تھامے پھیلائے رہتا تھاکہتا تھا سنا ہے کچھ ایسے پرندے ہیں جو اڑتے ہوئے انڈا دیتے ہیں اس امید میں دامن پھیلایا ہوں کہ اس کا انڈا میرے دامن میں گرے۔

امام نے یہاں پر اس بری خصلت کے انجام کو بتایا ہے اس بری خصلت کے مقابلے میں جو نیک خصلت ہے وہ ہے قناعت یعنی جو پاس میں ہے اس پر راضی رہنا ہے[1] حدیث میں ہے کہ عزیز ہے وہ شخص جس نے قناعت اپنائی۔[2]

و رضی بالذل من کشف عن ضره

دوسری خصلت جس کی طرف امام نے اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے جس نے اپنی پریشانیوں کوظاہر کر دیا وہ اپنی ذلت اور رسوائی پر راضی ہو گیا۔

ہر چیز کی ایک حریم ہوا کرتی ہے جب تک وہ حریم میں ہوتی ہے اس کی عزت باقی رہتی ہے ۔ بیمار جب ڈاکٹر سے اپنی بیماری کو بیان کرتا ہے، مدعی قاضی کے پاس جا کر اپنے اوپر ہوئے ظلم کو بیان کرتا ہے تو ڈاکٹر بیمار کا راز دار ہوتا ہے اور قاضی مدعی کا محرم ہوتا ہے اور وہ اس امید میں اپنی مشکلات کو بیان کرتا ہے کہ ڈاکٹر اور قاضی دونوں مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر اور قاضی وغیرہ کا فرض منصبی بنتا ہے کہ وہ اپنے مراجعین کے راز کو ہمیشہ راز رہنے دیں۔

انسان کو اپنی مشکلات کو صرف ایسے ہی افراد سے بیان کرنا چاہئے جو اسے حل کرنے کی صلاحیت اور ساتھ ہی انہیں صیغہ راز میں رکھنے پر قادر ہوں۔ اگر نا اہلوں سے بیان کیا تو صرف ذلت و رسوائی ہاتھ آئے گی۔

مشکلات کو ایسے افراد سے بیان کرنا جو ان کو حل نہ کر سکیں تو دو حالت سے خارج نہیں ہے جس سے بیان کر رہا ہے یا تو وہ دوست ہوگا یا دشمن، دوست کو مشکلات کو سن کر تکلیف ہوگی جبکہ دشمن شاد ہوگا اور ساتھ ہی دشمن کو بیان کرنے والے کی کمزوری کا علم ہو جائے گا جس کا وہ غلط فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

و هانت علیه نفسه من امر علیها لسانه

تیسری بری خصلت: یہ ہے کہ انسان زبان کو اپنے قابو میں نہ رکھے

امام فرما رہے ہیں کہ جس نے زبان کو اپنے اوپر حاکم بنایا اس نے خود کو ذلیل کیا۔

زبان کے حاکم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان بغیر غور و فکر کے جو منہ پہ آیا اسے کہہ دے، کہا جاتا ہے زبان سے نکلی ہوئی بات اس تیر کے مانند ہے جو کمان سے نکل چکا ہے یعنی اب اسے واپس نہیں لے سکتے اسی لئے مہذب سماج یہ تعلیم دیتا ہے پہلے سوچو پھر بولو۔

زبان انسان کے بدن کا ایک ایسا عضو ہے جو دو دھاری تلوار کی حیثیت رکھتا ہے، زبان سے ہی انسان کو عزت ملتی ہے  اور زبان سے انسان ذلیل ہوتا ہے۔ لقمان حکیم کا امتحان لینے کی غرض سے  آقا نے  لقمان کو ایک بکرا دے کر کہا کہ اس کو ذبح کر کے اس کے بہترین اعضا میرے لئے لاؤ  جناب لقمان نے بکرا ذبح کرکے اس کی زبان اور دل اپنے آقا کی خدمت میں پیش کیا دوسرے روز پھر آقا نے ایک بکرا دیا اور کہا کہ ذبح کرکے اس کا سب سے برا عضو لے کر آؤ جناب لقمان نے دوسرے دن بھی دل اور زبان لے کر اپنے آقا کی خدمت میں پہونچے، کہنے لگا یہ کیا بات ہے،کل میں نے کہا کہ سب سے اچھی چیز لاؤ تب بھی تم نے یہی چیزیں لائے تھے ،اس میں کیا حکمت ہے؟ تو  جناب لقمان نے کہا: اگر دل اور زبان پاکیزہ ہوں تو کوئی بھی چیز اس سے بہتر نہیں ہے اور اگر یہ ناپاک ہوں تو اس سے بری کوئی چیز نہیں ہے۔[3]

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جناب ابوذراپنے خطبے میں بیان کیا کرتے تھے کہ اے علم کے طلبگاروں یہ زبان خیر کی بھی کنجی ہے اور شر کی بھی کنجی ہےتو جس طرح سونے چاندی کو پیک کر کے رکھتے ہو اسی طرح زبان کو بھی پیک رکھو۔[4]

اس طرح امام علیہ السلام نے اس کلام میں انسان کی تیں بری عادتوں کا ذکر کیا ہے جن کا نتیجہ ایک ہی ہے، وہ ہے ذلت اور رسوائی۔

قصار نمبر3۔

قال علیه السلام: البخل عار، والجبن منقصه، والفقر یخرس الفطن عن حجته، والمقل غریب فی بلدته.

امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:بخل کرنا ننگ ہے، بزدلی عیب ہے،فقر چالاک انسان کو دلیل و برہان قائم کرنے سے روک دیتی ہے، نادار اپنے شہر ہی میں پردیسی ہوتا ہے۔

امام علیہ السلام نے اس حکیمانہ قول میں دو بری خصلت اور فقیر و نادار کے بارے میں تلخ حقائق بیان کیاہے۔

البخل عار

فرماتے ہیں کہ بخل کرنا ننگ ہے، بخل یعنی انسان خدا کی دی ہوئی نعمتوں کو جہاں خرچ کرنا چاہئے خرچ نہ کرے، بخل کے مقابلے میں جو پسندیدہ خصلت ہے، وہ سخاوت ہے اس کے ساتھ ہی ایک اور مذموم صفت اسراف ہے یعنی انسان کو جہاں خرچ نہیں کرنا چاہئے وہاں خرچ کرے یعنی اسراف افراط ہے اور بخل تفریط جیسا کہ معلوم ہے افراط اور تفریط دونوں بری عادت ہے میانہ روی بہترین راستہ ہے۔

بخل کی قباحت کسی پر پوشیدہ نہیں ہے  کوئی بھی چاہے وہ کتنا بڑا ہی کنجوس ہی کیوں ہو اسے گوارہ نہیں کوئی اسے کنجوس کہے۔

سورہ نساء میں اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے: جو لوگ بخل کرتے اور ساتھ ہی دوسروں کو بھی بخل کرنے کا حکم دیتے ہیں اور جو چیز اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اسے چھپاتے ہیں اور ہم نے تو کفران نعمت کرنے والوں کے لئے ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔[5]

رسول خدا (ص) فرماتے ہیں کہ کنجوس اللہ سے دور ہے،لوگوں سے دور ہے اور بہشت سے بھی دور ہے لیکن دوزخ سے نزدیک ہے،اللہ تعالی جاہل سخی کو کنجوس عابد سے زیادہ پسند کرتا ہے، سب سے بڑی بیماری بخل ہے۔[6]

والجبن منقصه

دوسری بری خصلت بزدلی ہے جس کے بارے میں امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بزدلی نقص و عیب ہے۔ بزدل انسان کبھی بھی اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کوظاہر  نہیں کر سکتا اور نہ ہی اپنی جان، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کر سکتا۔ امام نے مالک اشتر کو مصر روانہ کر تے  ہوئے سفارش کی کہ بزدل سے مشورہ  نہ کرنا ،ساتھ ہی بزدلی کے سرچشمے کی طرف اشارہ کیا کہ انہیں اللہ کی ذات پر بھروسہ نہیں ہے حالانکہ اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہے میں مومنوں کو اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔

امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جس کے اندر بخل، حسد اور بزدلی ہوگی وہ  ایمان کی حقیقت سے آشنا نہیں ہو سکتااور مومن کو بزدل، لالچی اور بخیل نہیں ہونا چاہئے۔[7]

رسول خدا صلعم فرماتے ہیں کہ بزدلی، کنجوسی اور لالچ تینوں کا سرچشمہ ایک ہے وو سوء ظن ہے ۔[8]

والفقر یخرس الفطن عن حجته

تیسرے فقرے میں فقر کے آثار کی اشارہ کرتےہوئے فرماتے ہیں کہ فقر عقلمند انسان کو گونگا بنا دیتاہے یعنی دلیل و برہان قائم کرنے سے روک دیتا ہے۔

فقیر انسان دو طرفہ حملے کا شکار ہوتا ہے ایک طرف اندرونی طور پر وہ احساس کمتری کا شکار ہوجاتا ہےجس کی وجہ سے اس کی خود اعتمادی کو ایک بڑا دھکا لگتا ہے ایسی صورت میں اس کی عقلمندی اور چالاکی سب دھری کی دھری رہ جاتی ہےاور  اس کے قدم لڑکھڑا نے سے دلیل و برہان کی کمان اس کے ہاتھوں میں سست پڑ جاتی ہے۔

دوسری طرف یہ کہ لوگ فقیروں کی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوتےوہ تو امیروں کے تقرب کی راہ کی تلاش میں ہوتے ہیں اب اگر ایک موقع مل گیا امیرسے تقرب کا تو ایسی صورت میں امیر کے دلائل کو سنیں گے یا غریب کے؟  ظاہر سی بات ہے فقیر کی باتوں کو ان سنی کر دیں گے۔

اسی وجہ سے تو جناب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں میرے لال میں نے حنظل جو بہت کڑواہوتا ہے اسے کھایا ہے اور ساتھ ہی صبر کا مزا بھی چکھا ہے لیکن فقر سے زیادہ کڑوی چیز میں نے نہیں دیکھا پس اگر کبھی ناداری کا سامنے کرو تو خبردار اپنی ناداری کا قصہ کسی سے بیان نہ کرنا ورنہ لوگ تمہاری قدر و منزلت کو گھٹا دیں گے۔[9]

رسول خدا صلعم کے چچا عباس کہا کرتے تھے: لوگ مالداروں سے اس طرح چپک جاتے ہیں جیسے سورج سے اس کی شعاع، مالدار ان کے لئے میٹھے پانی سے زیادہ فرحت بخش ،بلندی میں آسمان سے اونچے، میٹھاس میں شہد سے زیادہ شیرین، لطافت میں پھولوں سے بھی زیادہ پاکیزہ ، ان کی غلطیاں عین صواب،ان کی برائیاں حسنات اور ان کی باتیں ساری مورد قبول ، ان کی بیٹھک رفیع ہوتی ہے اور ان کی باتوں سے کوئی اوبتا نہیں ہے، لیکن لوگ،فقیرکو سراب سے بھی زیادہ جھوٹا سمجھتے ہیں، شیشے سے بھی زیادہ ثقیل و ناگوار ہوتے ہیں، ان کے پاس سے گزریں گے تو سلام کرنے کے روا دار نہیں ہونگے، اگر وہ دیکھائی نہ دے تو کوئی خیر خبر نہیں لے گا اگر لوگوں کے بیچ میں ہوگا تو لوگ اسے ماریں گے اور اگر ان کے بیچ نہ ہو تو شماتت کریں گے اگر ناراضگی کا اظہار کرے تو پس گردن ماریں گے، اس سے مصافحہ سے لوگ کا وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اس کی قرائت سے لوگوں کی نماز باطل ہوجاتی ہے۔[10] تو یہ ہے فقیر کی داستان غم جسے رسول اکرم صلعم کے چچا نے سنائی اسی لئے تو قرآن نے آگے بڑھ کے آواز دی: مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی زینت ہے۔[11]

ہاں ایک فقر ہے جس کی روایات میں مدح کی گئی ہے جسے رسول خدا صلعم نے اپنے آپ کے لئے فخر قرار دیا ہے البتہ جس فقر کا رسول خدا ذکر کر رہے ہیں وہ قناعت اور سادہ زیست کی طرف اشارہ ہے ،اور جس فقر کے بارے میں رسول کے وصی نے اشارہ کیا وہ فقر معیشتی ہے ۔

والمقل غریب فی بلدته،

خوددار فقیر اپنے شہر ہی میں پردیسی ہوتا ہے۔

امام کے کلام میں فقر اور مقل آیا ہے فقیر اور مقل کے درمیان فرق یہ ہے کہ فقیر وہ ہے جو اپنی ناداری کو عام کرتا ہے اور مقل وہ ہے جو اپنی ناداری کو چھپائے[12]جسے ہم خوددار فقیر کہہ سکتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ فقیر وہ جس کے پاس کچھ بھی نہ ہواور مقل وہ ہےجس کے پاس کچھ ہو[13] یعنی جو تنگی میں زندگی بسر کر رہا ہے ان دونوں تفسیر کو اس طرح ایک کر سکتے ہیں کہ جب کچھ بھی نہ ہو تو انسان مجبورا ہی سہی اپنی ناداری کو عام کر دیتا ہے اور جب تک تنگی میں زندگی گزرتی ہے وہ ناداری کو چھپائے رہتا ہے۔

اس فرق کو نظر میں رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ امام علیہ السلام نے ایک مرتبہ فقر کے اثار کو بیان کیا ہے اور دوسری مرتبہ مقل اور خوددار فقیر کےاوپر گزرنے والی حقیقت کو ذکر کیا ہے۔

امام علیہ السلام نے اس تلخ حقیقت کو بیان کیا ہے جس ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں خوددارفقیر جو اپنی مشکلات کو کسی سے بیان نہیں کرتا گویا وہ فقر کی وجہ سے معاشرہ سے کٹتا جاتا ہے یا یوں کہیں کہ لوگ کے بیج رہ کربھی جب لوگ اس کی مشکلات کو حل نہ کر سکیں تو ٖغربت کا شدید احساس کرتا ہے۔ اس کے بر عکس مالدار وہ جہاں بھی جائے اس کو غربت کا ذرہ برابر احساس نہیں ہوتا آج کی دنیا میں تو پردیس میں زیادہ آرام و سکون سے رہتے ہیں۔

قصار نمبر4:

قال علیه السلام: الْعَجْزُ آفَةٌ وَ الصَّبْرُ شَجَاعَةٌ وَ الزُّهْدُ ثَرْوَةٌ وَ الْوَرَعُ جُنَّةٌ‌ نِعْمَ الْقَرِينُ الرِّضَا.

امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:ناتوانی آفت ہے، صبر شجاعت ہے، زہد ثروت ہے، ورع سپر ہے، بہترین ہمنشین رضا ہے۔

امام علیہ السلام اس  حکیمانہ قول میں ایک بری خصلت اور چار نیک خصلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہر ایک کے  آثار کو بیان کیا ہے۔

الْعَجْزُ آفَةٌ ناتوانی آفت ہے

ایک اور بری خصلت جس کا ذکر امام علیہ السلام کیا ہے وہ ناتوانی ہے۔

ناتوانی کو ذکر کیا لیکن کس چیز میں ناتوان، اس چیز کو بیان نہیں کیا اس وجہ سے اس کا مفہوم بہت وسیع ہو جاتاہے۔ علم میں، جسم میں، معیشت میں، فکرمیں ، قدرت میں، جہاں بھی آپ ناتوانی کے تصور کو لاسکتے ہیں، ان سب کو شامل ہے۔ عاجز انسان ہر جگہ ذلیل و رسوا ہوتا ہے ،کوئی بھی اسے عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا ۔ اسی لئے اسلام نے تاکید کی ہے کہ ناتوانی کو اپنے سے دور کرو اور جتنا ہو سکے قوت  و قدرت حاصل کرو  وَ أَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّة۔ کبھی ناتوانی اور کمزوری انسان کے اختیار میں نہیں ہوتی اورکبھی  انسان کی کوتاہیوں کو وجہ سے دامن گیر ہوتی ہے۔ اصول کافی میں ایک دلچسپ روایت امیر المومنین علیہ السلام سے نقل ہے کہ جب اشیا کی ایک دوسرے سے شادی ہوئی تو کاہلی اور ناتوانی نے آپس میں شادی کی اور اس شادی سے جو اولاد وجود میں آئی وہ فقرہے۔[14]

وَ الصَّبْرُ شَجَاعَةٌ، صبر شجاعت ہے

اب اس کے بعد امام نے انسان کی پسندیدہ خصلتوں کا ذکر کرتے ہوئے  فرماتے ہیں:صبر شجاعت ہے۔

صبر شجاعت ہے، ہمارے تصور میں تو شجاعت اور بہادری اسے کہتے ہیں جس کے ذریعے ہم کسی کو نقصان پہونچا سکیں لیکن امام کی نظر میں شجاعت کچھ اور ہی چیز ہے۔ وہ یہ ہےکہ انسان خود کے اوپر کنٹرول کر کے صبر کر جائے اسے کہتے ہیں بہادری اور جب ہم کسی اور کو اپنی قدرت سے زیر کر دیں تو اسے کہتے ہیں طاقت کا نشہ ۔ اسی لئے امام نے اسی نہج البلاغہ میں ارشاد فرمایا کہ جب تم اپنے دشمن غلبہ پا جاؤ تو اپنی کامیابی پر شکرانہ کرتے ہوئے دشمن کو معاف کردو۔[15]

صبر کی تعریف میں کہا جاتا ہے کہ انسان سختیوں ، مصائب و آلام میں اضطراب کے بجائے ثبات نفس کا مظاہرہ کرے، یا یوں کہیں کہ صبر یعنی نفس کو اضطراب سے روکنا۔[16]

چون کہ یہ کام بڑا سخت ہے یہاں پر انسان کی اصلی بہادری کا امتحان ہے اگر صبر کا مظاہرہ کیا تو وہ بہادر کہلانے کے قابل ہے ۔ اسی وجہ سے بزرگوں کے اقوال میں ملتا ہےصبر تلخ ہے اسے آزادہ ہی نوش کر سکتا ہے ۔

رسول خداصلعم نے صبر کی تین قسمیں بیان کی ہیں مصیبت پر صبر، اطاعت پر صبر اور معصیت پر صبر[17] معصیت پر صبر یعنی انسان گناہ کے ظاہری لذت سے اپنے آپ کو دور رکھے۔

الزُّهْدُ ثَرْوَةٌ، زہد ثروت ہے

دوسری نیک خصلت جس کی امامؑ نے بیان کیا ہے  وہ زہد ہے۔

زہد کی تعریف کے لئے امامؑ ہی کے ایک قول کا سہارا لیتے ہیں فرماتے ہیں: زہد کی پوری حقیقت قرآن کریم کے اس دو کلمے میں سمٹی ہوئی ہے کہ” جو چیز ہاتھ سے نکل جائے اس پر افسوس مت کرو اور جو چیز تمہیں ملے اس پر خوش مت ہو”[18]

اگر انسان کی پوری تلاش، کوشش کا خلاصہ کیا جائے تو یہی ہے کہ وہ اس منزل پر پہونچنا چاہتا ہے  جہاں وہ بے نیازی ہونے کا احساس کر سکے،اگر ہدف یہ ہے تو زاہد وہ فرد ہے جس کا دنیا اور مال دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا،چاہےدنیا اور مال دنیا اس سے ادبار کریں، چاہے اقبال وہ ہر حال میں خدا کا شاکر ہے یہی وہ دولت ہے جس کی طرف مولا اشارہ کر رہے ہیں ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں ساری کی ساری نیکیاں ایک گھر میں بند کر دی گئی ہے جس کی چابھی دنیا میں زہد اختیار کرنا ہے۔[19]

مال کا ہونا اور بات ہے اور اس سے دلبستگی رکھنااور ہے جس چیز کی اسلام نے مذمت کی ہے وہ تعلق ہے، ممکن ہے ایک انسان کچھ نہ رکھ کر کے بھی زاہد نہ بن سکے اور ایک انسان دنیا کی تمام چیزیں رکھ کے بھی زاہد ہو۔

الْوَرَعُ جُنَّةٌ‌، ورع سپر ہے

تیسری نیک خصلت جس کو امام نے بیان کیا ہے وہ ورع ہے،فرماتے ہیں ورع سپر ہے۔

ورع محرمات الہی سے بچنے اور اس سے دور رہنے کو کہتے ہیں، شارحین حدیث نے ورع کی تین قسمیں بیان کی ہیں:

  1. پہلے یہ کہ انسان فسق و فجور سے بچےاس کوتائبین کی ورع کہتے ہیں۔
  2. دوسرے یہ کہ انسان محرمات الہی کے ساتھ ساتھ شبہناک چیزوں سے بھی پرہیز کرے اس کو صالحین کا ورع کہا جاتا ہے، مثلا دوسروں کے بارے بات کرنا اس خوف سے چھوڑ دے کہ کہیں غیبت نہ ہو جائے۔
  3. تیسرے یہ کہ انسان ایسے حلال سے بھی پرہیز کرے جس سے محرمات الہی میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہو اس کو متقین کا ورع کہتے ہیں۔

4.چوتھے یہ ہے کہ انسان خدا کے علاوہ ہر چیز سے منہ موڑ لے اس خوف سے کہ عمر کا کچھ ایسی چیزوں میں نہ گزر جائے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے اس کو صدیقین کا ورع کہا جاتا ہے۔[20]

امام نے ورع کو سپر کہا ہے  ، تو ورع انسان کو کس چیز سے محفوظ رکھتا ہے؟ چونکہ سپر انسان کو دشمن کے حملے سے محفوظ رکھتا ہے۔

اس کے جواب میں دو بات کہی جا سکتی ہے:

ایک یہ کہ ورع انسان کو قیامت کے عذاب سے محفوظ رکھتا ہے۔

دوسرے یہ کہ ورع انسان کو دنیا کے ان مصائب و آلام سے جو حرام غذاؤں کی بدولت پیدا ہوتے ہیں جیسے قسی القلب ہونا، دعا بلکہ عبادات کا قبول نہ ہونا اس سے محفوظ رکھتا ہے۔ کہا جاتا ہے جب تک حرام غذاؤں کے اثرات زائل نہ ہوجائیں یا یہ کہ کھانے سے چالیس دن نہ گزرجائیں اس کی عبادت قبول نہیں ہوتی۔[21]

اس میں کوئی شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے کہ محرمات الہی کے جو آثار انسان کے اوپر پڑتے ہیں وہ بدن کے جراحات اور اس کے درد سے زیادہ المناک ہوتے ہیں۔

حقیقت میں انسان دو طریقے کی سختیاں جھیلتا ہے ایک وہ ہے جس کا تعلق انسان کے بدن سے ہے اور دوسرے کا تعلق انسان کی روح سے ہے، بدن کا درد اور زخم مادی دواؤں سے مندمل ہوجاتا ہے لیکن روح پر لگا زخم اتنی آسانی سے ختم نہیں ہوتااس کو زائل کرنے کے لئے روحانی دواؤں کی ضرورت ہوتی ہے ، ورع  انسان کو روحانی بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔

نعم القرین الرضی

قرین یعنی ساتھی

الرضی یعنی خوشنودی، کسی قسم کا اعتراض اور غصہ نہ کرنا[22]، نہ ہی ظاہری طور پر اور نہ ہی باطنی طور پر۔

بہترین ساتھی، خوشنودی ہے۔

بہترین ساتھی وہ ہے جس کے ساتھ رہ کر انسان کو فرحت کا احساس ہو  اور اس کے پاس پہونچ کر دنیا کے تمام مصائب و آلام کافور ہو جائیں، انسان سب کو بھول کر چین و سکون کے دو لمحے گزار سکے، یہ خصوصیت اگر کسی چیز میں مل سکتی ہے تو وہ اللہ کی مرضی کو تسلیم کرنے میں ہے۔[23]

حقیقت میں اگر دیکھا جائے تو محبت کے درخت میں رضا کا پھل لگتا ہے، محب، محبوب کی ہر ادا کو پسند کرتا ہے ، جب انسان کا محبوب خدا ہو تو خدا کی ہر قضا پر وہ راضی ہوگا۔

جناب موسیؑ نے اللہ کی بارگار میں درخواست کی: پروردگارا مجھے ایسا عمل بتا جس سے میں تیری رضا کو حاصل کروں، اللہ کی طرف سے وحی ہوئی موسی میری رضا تمہاری نا خوشی میں ہےجس کی تمہارے اندر قدرت نہیں۔ موسی زمیں پر سجدہ ریز ہوگئے اور فریاد کی میرے اللہ تو نے مجھے سے ہم کلام ہونے کا وہ شرف بخشا  کہ آج تک یہ شرف کسی کو نہ دیالیکن خدایا تو نے ابھی تک اس عمل کی تعلیم نہیں دی جس سے میں تیری خوشنودی حاصل کرسکوں تب اللہ نے موسیؑ کے پاس وحی بھیجی کہ میری خوشنودی اس میں ہے تو میری قضا پر راضی رہ۔[24]

خلاصہ

امام کے یہ تین کلمات قصار کل بارہ جملوں پر مشتمل ہے  ہر جملہ ایک حقیقت کو بیان کرتا ہے، اگر ان بارہ جملوں کو موضوع کے حساب سے تقسیم بندی کی جائے تو مندرجہ ذیل حقیقت سامنے آتی ہے ، نیک خصلتیں، بری خصلتیں، حالات۔

چھ بری خصلت: لالچ،اپنی پریشان حالی کا تذکرہ، زبان کا قابو میں نہ ہونا،کنجوسی، بزدلی اور ناتوانی کی طرف اشارہ کرتے ہر ایک کے برے آثار سے آگاہ کیا۔

لالچ

چار نیک خصلت: صبر، زہد ، ورع اور رضا  کو ان کے آثار کے ساتھ بیان کیا ہے

حالات: تنگدستی اورخوددارفقیر کے اوپر بیتنے والے حالات سے آگاہ کیا ۔

 

منابع:

  1. الاخلاق، سید عبداللہ شبر،قم: مکتب العزیزی، 1374۔
  2. اصول کافی، کلینی، دار الکتب الاسلامیہ، تہران: 1365شمسی۔
  3. بحار الانوار، علامہ مجلسی، مؤسسہ الوفاء، بیروت: 1404قمری۔
  4. پیام امام المومنین،مکارم شیرازی،انتشارات امام علی بن ابی طالب، 1390۔
  5. غررالحکم، عبدالواحد بن محمد تمیمی آمدی، انتشارات دفتر تبلیغات، قم: 1366شمسی۔
  6. مجمع البحرین، طریحی فخر الدین، دار احیاء التراث العربی، بیروت: 1983۔
  7. مشکاۃ الانوار، طبری ابو الفضل علی بن حسن، کتابخانہ حیدریہ، نجف: 1385قمری۔
  8. مفتاح السعادۃ فی شرح نہج البلاغہ، محمد تقی نقوی قائنی، تہران، قائن، 1383شمسی۔
  9. وسائل الشیعہ، حر عاملی، مؤسسہ آل البیت، قم: 1409قمری۔

 

[1] . مجمع البحرین، ج4، ص384۔

[2] . غررالحکم، ص392، ح9018۔

[3] . بحار الانوار، ج13، ص424۔

[4] . مشکات الانوار، ص 175۔

[5] . سورہ نساء، آیت 37۔

[6] . مفتاح السعادۃ فی شرح نہج البلاغہ، ج16، ص 222۔ جامع السعادات سے نقل کیا ہے۔

[7] . بحار الانوار، ج64، ص364، ح68۔

[8] . قال رسول الله: ان الجبن و البخل و الحرص غریزه واحده یجمعها سوء الظن بحار الانوار، ج73، ص304۔

[9] . مفتاح ، ج 16، ص223۔

[10] ۔ مفتاح، ج 16، ص224۔

[11] . سورہ کہف، آیت 46۔

[12] . پیام امام، ج12، ص41۔

[13] . مفتاح، ج16، ص225۔

[14] . اصول کافی، ج5، ص86۔

[15] . نہج البلاغہ، قصار نمبر 11۔

[16] . مجمع البحرین، ج3، ص358۔

[17] . اصول کافی، ج2، ص91۔

[18] . الزُّهْدُ كُلُّهُ بَيْنَ كَلِمَتَيْنِ مِنَ الْقُرْآنِ قَالَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ "لِكَيْلٰا تَأْسَوْا عَلىٰ مٰا فٰاتَكُمْ وَ لٰا تَفْرَحُوا بِمٰا آتٰاكُمْ”۔ قصار نمبر 439۔

[19] . وسائل الشیعہ، ج16، ص12۔

[20] . مجمع البحرین، ج4، ص402۔

[21] . مفتاح السعادہ، ج16، ص230۔

[22] . اخلاق، سید عبداللہ شبر، ص232۔

[23] . پیام امام، ج12، ص49۔

[24] ۔ بحار الانوار، ج79، 134، بہ نقل از پیام امام۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button