مثبت اور منفی صفات نہج البلاغہ کی روشنی میں
تحریر: غلام قاسم تسنیمی
کسی بھی شخصیت کو جاننے، پہچاننے اور اس کی معرفت کا ایک راستہ اس کی گفتار ہے، انسان کی باتیں اس کی شخصیت کا آئینہ ہوا کرتی ہیں۔ اب جس قدر اس کی باتیں گہری، عمیق، حکمت آمیز، حقائق سے مزین اور معارف کی ترجمان ہونگیں اس قدر اس کے علم، اخلاق کا قد بلند ہو گا۔ اس لحاظ سے مولا علی کو پہچاننے کیلئےآنحضرت کے خطبات، مکتوبات اور کلمات قصار سے آشنائی ان کی معرفت کا حقیقت نما دریچہ ہے، جس سے اس حکیم الہی کے علم و حکمت کا اندازہ ہوتا ہے اور انسان، انا مدینہ العلم و علی بابھا [1]کی تصدیق کرتا ہے، اور بے ساختہ فوق کلام المخلوق دون کلام الخالق[2] کا اعلان کرتا ہے۔
البتہ ہر کوئی اپنی ظرفیت کے مطابق علم لدنی کے کلام سے مستفید ہوتا ہے اور اس کی جمع آوری کرتا ہے۔ سید رضی کیونکہ میدان فصاحت و بلاغت کے شہسوار ہیں لہذا انہوں نے اسی پیمانے سے مولا کے کلام کو جمع کیا ہے اور اسے بلاغت کا نہج قرار دیتے ہوئے نہج البلاغہ سے موسوم کیا ہے۔ پھر فصاحت کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ کوئی اس کا اعلان کرے یا اس کی سند کو بیان کرے بلکہ کسی حکیم کے بقول مشک آن است کہ خود ببوید نہ آن کہ عطار بگوید۔
شاید یہی وجہ ہے کہ سید رضی نے اس کی سند کا تذکرہ نہیں کیا جو کہ ایک اہم خوبی ہے جبکہ نادان مبغضوں نے اسے نہج البلاغہ کا عیب سمجھتے ہوئے طعنہ دیا کہ یہ کتاب مرسل ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ مولا علی کے کلمات فقط وہ نہیں ہیں جو نہج البلاغہ میں جمع کیے گئے ہیں اور نہ صرف سید رضی نے ہی جمع کیے ہیں بلکہ مولا کے کلمات کے بہت سے مجموعے ہیں جن میں سے نہج البلاغہ ایک ہے۔
ہم اپنی وسعت کے مطابق مولا کے کلمات قصار میں سے تیں کی مختصر تفیسر آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں، اس امید پر کہ مولا کے یہ کلمات ہماری زندگی میں مشعل راہ ثابت ہوں ۔ البتہ ان تینوں حکمتوں کا موضوع، انسانی مثبت و منفی صفات ہے، مولانے ان حکمتوں میں کچھ صفات کو بیاں کیا ہے جن میں بعض اچھی صفات ہیں جنہیں اپنانا چاہیے اور بعض اخلاقی رذائل یا بری خصوصیات ہیں جن کو ترک کرنا چاہیے۔
دوسری حکمت
أَزْرَى بِنَفْسِهِ مَنِ اسْتَشْعَرَ الطَّمَعَ وَ رَضِيَ بِالذُّلِّ مَنْ كَشَفَ عَنْ ضُرِّهِ وَ هَانَتْ عَلَيْهِ نَفْسُهُ مَنْ أَمَّرَ عَلَيْهَا لِسَانَهُ
جس نے طمع کو اپنا شعار بنا لیا اس نے اپنے نفس کو رسوا کیا، جس نے پرشانی کا اظہار کر دیا وہ اپنی ذلت پر راضی وہ گیا، اور جس نے نفس پر زبان کو حاکم بنا دیا اس نے نفس کو سبک تر بنا دیا۔
اس حکمت میں مولا علی ؑ ایسی صفات کو بیان کر رہے ہیں جو کہ انسان کی شخصیت کیلئے مضر اور خطرناک ہیں۔ جن سے انسان کی آبرو مجروح اور نفس کی تحقیر ہوتی ہے۔ ان صفات کو رذائل میں شمار کیا جاتا ہے۔
طمع اور لالچ
پہلے جملے میں فرماتے ہیں: أَزْرَى بِنَفْسِهِ مَنِ اسْتَشْعَرَ الطَّمَعَ؛ اس نے اپنے آپ کو حقیر بنایا جس نے طمع کو اپنا شعار بنایا۔
لیکن پہلے اس حکمت کے اہم مفردات کی معنی: طمع کی معنی اپنے حق سے زیادہ چاہنا اوردوسروں سے ضروریات،وسائل اور مواہب زندگی چھیننا ہے۔ استتشعر کی معنی اپنا شعار بنانا ہے، البتہ بعض نے اس کی معنی اندرونی یا زیرینی لباس بھی بتائی ہے ، اس بنیاد پر معنی یہ بنے گی کہ اس نے طمع کو خود سے چمٹا لیا اور اس سے جدا نہیں ہونا چاہتا۔ طمع کو شعار بنانے اور رسوا ہونے میں گہرا رابطہ ہے؛ کیونکہ لالچی انسان اپنا مقصد حاصل کرنے کیلئے ہر قسم کی رسوائی برداشت کرنے کیلئے تیار ہو جاتا ہے۔وہ دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کو عیب نہیں سمجھتا اور اس طرح اپنی شخصیت کو اپنا مقصد پانے کیلئے پامال کر دیتا ہے۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ جب انسان میں حرص و لالچ بڑھ جاتی ہے تو اس سے ایسے اعمال سرزد ہوتے ہیں جو کاملا احمقانہ ہوتے ہیں، جیسا کہ تاریخ میں ایسے کتنے ہی افراد کا تذکرہ ملتا ہے؛ ان میں سے ایک، عرب کا معروف و مشہور شخص اشعب ہے جس کیلئے کہا جاتا ہے کہ وہ راستہ چلتے ہوے عام طور پر اپنے دامن کو پھیلائے چلتا تھا، جس کا سبب یہ بتاتا تھا کہ میں نے سنا ہے کچھ پرندے اڑتے ہوے انڈا دیتے ہیں، شاید کوئی پرندہ میرے اوپر اڑتے ہوے انڈا دیدے جو میرے دامن میں آ گرے۔
اس کی یہ بات بھی بہت معروف ہے کہ جب بھی اسے ستانے کیلئے بچے جمع ہوتے اور اسے تنگ کرتے تو انہیں بہگانے کیلئے کہتا کہ فلاں صاحب مٹھائی بانٹ رہے ہیں جاؤ جاکر لے لو، جب بچے وہاں جانے کیلئے دوڑتے تو آخر میں خود بھی ان کے پیچھے دوڑتا۔ اگر کوئی پوچھتا تم کیوں ان کے پیچھے جا رہے ہو، جواب میں کہہ دیتا شاید میری بات سچ ہو اور وہ واقعاً مٹھائی بانٹ رہا ہو اگر میں نہ گیا تو اس سے محروم ہو جاؤں گا۔
واقعاً لالچ انسان کو کتنا پست اور حقیر کر دیتی ہے کہ وہ اس طرح کی حرکات کرنے لگتا ہے۔ یہ داستان درست ہو یا نہ ہو لیکن اتنا مسلم ہے کہ لالچ بری بلا ہے جو کہ انسان کی رسوائی اور ذلت کا سبب بنتی ہے۔ البتہ جتنا ہی لالچ بری بلا ہے اتنا ہی قناعت اچھی اور پسندیدہ صفت ہے، جو انسان میں خود اعتمادی اور عزت نفس پیدا کرتی ہے۔ مولا علی کا فرمان ہے: عز من قنع[3]، جس نے قناعت کو اختیار کیا وہ صاحب عزت بن گیا۔
مشکلات کا اظہار
اس حکمت کے دوسرے جملے میں مولا فرماتے ہیں: وَ رَضِيَ بِالذُّلِّ مَنْ كَشَفَ عَنْ ضُرِّهِ؛ جس نے اپنی مشکلات کو ظاہر کیا وہ ذلت پر راضی ہو گیا۔
اس جملے میں مولا علی ان افراد کا ذکر کر رہے ہیں جو معمولی سے معمولی پریشانی بھی برداشت نہیں کر سکتے ، در اصل ان کے پاس صبر اور برداشت کا مادہ ذرہ برابر بھی نہیں ہوتا، جیسے ہی کوئی معمولی سی مصیبت آتی ہے فوراً ہی شکوہ و شکایت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اپنے اندرونی اور ذاتی مسائل اور مشکلات کو ہر ایک کے سامنے بیان کرنے لگتے ہیں[4]، وہ بھی اتنے مبالغے کے ساتھ کہ گویا پوری دنیا میں ان کے علاوہ کوئی مظلوم نہیں ہے اور روی زمیں پر فقط وہی مصائب کا سامنا کر رہے ہیں۔
لیکن وہ اس بات کی طرف متوجہ نہیں ہوتے کہ اس طرح کا گلہ و شکوہ حقیقت میں دنیا کے پروردگار کی شکایت ہے، جو کہ آداب بندگی اور رسم عبودیت کے برخلاف ہے۔ اس طرح وہ نہ فقط خدا پر تہمت لگاتے ہیں بلکہ اپنے لئے بھی ذلت و رسوائی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔
ویسے بھی اس ہلہ گلہ، شور شرابہ اور شکوہ شکایت کا کیا فائدہ جس کا ازالہ ممکن نہ ہو؛ کیونکہ اگر اپنی مشکلات کی داستان دشمن سے بیان ہوتو یہ اس کیلئے مایہ تسکین ہے اور وہ ہماری مشکلات پرسوائے خوش ہونے کے اور کیا کرے گا۔ اور اگر کسی دوست کے سامنے دفتر مشکلات کھولی جائے تو اس کیلئے مایہ تاسف اور دلگیری ہوگی۔ اس لیے کسی بھی طور پر مناسب نہیں کہ انسان اپنی مشکلات دوسروں کے سامنے بیان کرے۔
امام صادق ایک طولانی حدیث میں اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوے فرماتے ہیں: و فی المکارہ صبور[5]، اہل ایمان پریشانیوں پر صبر کرتے ہیں۔
اصول کافی میں ایک واقعہ اس طرح مرقوم ہے: احنف نامی ایک شخص نے کسی ایسے انسان کو دیکھا جو دانتوں کی معمولی تکلیف کی وجہ سے گلہ و شکوہ کر رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں درد کہ وجہ سے پوری رات نہیں سو سکا، اور بڑے ہی دردناک و المناک طریقے سے اپنی داستان کے غم کے پیچ و خم کھول رہا تھا۔ احنف نے اسے نصیحت کرتے ہوے کہا: خدا کی قسم! میں تین سال سے آنکھ کی بیماری میں مبتلا ہوں اور میری یہ پریشانی ایک آنکھ کی بینائی کے چلے جانے پر ختم ہوئی لیکن میں نے آج تک کسی سے کوئی شکوہ نہیں کیا ہے۔[6]
البتہ اپنی مشکلات اور پریشانی کو اپنے دینی بھائی کے سامنے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن وہ بھی اس صورت میں جب وہ اسے حل کرنے کی قدرت رکھتا ہو۔ خود مولا اپنے دوست کے بارے میں فرماتے ہیں وہ اپنی مشکلات کسی سے بیان نہیں کرتے تھے جیسا کہ ان کا فرمان ہے: و کان لا یشکو الا عند برئہ[7]، وہ کسی کو کچھ نہیں بتاتے تھے مگر یہ کہ جب عافیت پا لیتے تھے۔ البتہ جب اللہ تعالی کے فضل سے مشکل حل ہو جاتی تھی تو اس نعمت کو بیان کرنے کیلئے اس کا اظہار کرتے تھے جس کا حکم قرآن مجید میں دیا گیا ہے۔[8]
زبان کو حاکم بنانا
تیسرے جملے میں مولا کا ارشاد یہ ہے: وَ هَانَتْ عَلَيْهِ نَفْسُهُ مَنْ أَمَّرَ عَلَيْهَا لِسَانَهُ؛ اور جس نے نفس پر زبان کو حاکم بنا دیا اس نے نفس کو سبک تر بنا دیا۔
اس جملے میں مولا، زبان کو امیر بنانےاور اپنی ریاست اس کے حوالے کرنے کا نقصان بیان فرما رہے ہیں، جو کہ نہ صرف زیادہ بولنے کو شامل ہے بلکہ اسے مطلق آزادی دینے کی معنی میں ہے۔
در واقع جو کچھ منھ میں آئے کہ دینا، بغیر سوچے سمجھے بولنا زبان کو آزادی دینے کے مترادف ہے؛ جو کسی بھی طرح انسان کیلئے سود مند نہیں ہے۔ زبان کو آزادی دینے کا مطلب عقل کو قید کرنا ہے۔ کیونکہ زبان کی امیری کا مطلب عقل کے استعمال اور سوچے سمجھے بغیر اسے اپنی مرضی پر چھوڑ دینا ہے[9] جو کہ نہایت خطرناک کام ہے۔
کتنے ہی ایسے موارد ہیں جہاں زبان کی غیرذمہ دارانہ اور معمولی سی حرکت قتل، غارتگری اور خونریزی کا باعث بنتی ہے۔ زبان سے نکلا ہوا ایک نا سنجیدہ جملہ خاندانوں میں اختلاف پیدا کر سکتا ہے، گھروں کو اجاڑ کر زندگی اجیرن بنا سکتا ہے۔ الزام تراشی، تہمت، غیبت وغیرہ زبان ہی کی آفات اور پیدا کردہ مشکلات ہیں؛ اس لیے انسان کی بھلائی اس میں ہے کہ وہ زبان کو اپنے قابو میں رکھے۔
اگر انسان زبان کے گناہوں سے کنارہ کشی کر بھی لے تو بھی زیادہ بولنا، زیادہ غلطیوں کا سبب بنے گا جس کی وجہ سے دوست احباب دل آزردہ ہوں گے اور انسان سے کنارہ کشی کرنے لگیں گے۔ مولا علیؑ کے ارشاد کے مطابق: من کثر کلامہ کثر خطائہ[10]، جو زیادہ بولے گا اس کی غلطیاں بھی زیادہ ہوں گیں۔
البتہ مخفی نہ رہے کہ جس طرح زبان کے گناہ زیادہ ہیں اسی طرح اس کی نیکیاں بھی کم نہیں ہیں۔ اسی زبان کے ذریعے سے ذکر الہی انجام پاتا ہے، یہی زبان دوسروں کو ہدایت کرنے اور نصیحت کرنے کا کام دیتی ہے۔ لیکن ہمیشہ متوجہ رہنا چاہیے کہ زبان کا استعمال کہاں کس طرح کرنا ہے۔ مولا کے اس فرمان کا مطلب بھی یہی ہے کہ انسان زبان کو اپنے قابو میں رکھے۔ مولا ہرگز یہ نہیں چاہتے کہ ہم بولنا ہی چھوڑ دیں؛ کیونکہ یہ کام اپنی جگہ پر زبان جیسی نعمت کی ناشکری ہے۔
تیسری حکمت
الْبُخْلُ عَارٌ وَ الْجُبْنُ مَنْقَصَةٌ وَ الْفَقْرُ يُخْرِسُ الْفَطِنَ عَنْ حُجَّتِهِ وَ الْمُقِلُّ غَرِيبٌ فِي بَلْدَتِهِ
بخل ننگ و عار ہے، بزدلی منقصت ہے فقر ہوشمند کو بھی اس کی حجت کیلئے گونگا بنا دیتا ہے اور مفلس آدمی اپنے وطن میں بھی غریب ہوتا ہے۔
بخل
البخل عار۔بخل، ننگ و عار ہے۔بخل کی معنی ہے: البخل حبس ما یقدر علی انفاقہ من مال او معاونہ بید و لسان فقد یصل الی حد منع ادا الحقوق الواجبہ،[11] کسی بھی قسم کی مدد چاہے مالی ہو یا زبانی اورجان؛ اس کے روکنے کو بخل کہتے ہیں، اور کبھی تو یہ واجب مالی حقوق کے ادا نہ کرنے کا سبب بنتی ہے۔
اس صفت کا پایا جانا انسان کی پسماندگی اور عقب افتادگی کی دلیل ہے، جس طرح کہ جود و بخشش انسان کے نیک و کامل ہونے کی علامت ہے۔ اب یہ کنجوسی یا بخل چاہے مال کے خرچ کرنے میں ہو یاعلم کی تعلیم دینے میں، کوئی ہنر یا پیشہ سکھانے میں ہو یا کسی بھی چیز میں۔ یہ سب کے سب بخل کے نمونے ہیں۔
دقیق تعبیر کے مطابق حقیقت میں بخیل وہ ہے جو الہی وظیفہ اور انسانی فرائض کو ادا نہ کرے۔[12] اس بنیاد پر بخل کا دائرہ انسان کی روحانی و معنوی ابعاد کو بھی شامل ہوگا جس کا مطلب یہ ہے کہ بخل ہر قسم کی تنگ نظری کا نام ہے۔
امام صادقؑ فرماتے ہیں:ایما مؤمن بخل بجاهه على اخیه المؤمن و هو اوجه جاها منه الا مسه قترو ذلة فى الدنیا و الاخرة و اصابت وجهه یوم القیمة لنفحات النیران معذبا کان او مغفورا له. [13]؛جو بھی عزت دار مومن اپنے مومن بھائی کیلئے اپنی حیثیت کو خرچ کرنے میں بخل کرے حالانکہ اس کی عزت بہت ہی زیادہ ہو تو وہ دنیا و آخرت میں تنگ دستی میں گرفتار ہوگا۔ اور قیامت کے دن آگ کے شعلوں سے اس کا چہرہ جھلس جائے گا اگرچہ خدا نے اسے بخش ہی کیوں نہ دیا ہو۔
اس روایت سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ بخل اور کنجوسی صرف مال خرچ کرنے کے مورد میں خرچ نہ کرنے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ جہان انسان اپنی آبرو اور شخصیت کے ذریعے سے دوسروں کی مشکلات حل کر سکتا ہو، اس کے دریغ کرنے کو بھی بخل ہی کہتے ہیں۔
امام زین العابدینؑ ایک مخصوص جاہ و وقار کے مالک تھے انہوں نے کبھی بھی کسی سائل یا حاجت مند کے جواب میں ’’نہ‘‘ نہیں کہا۔ جس وقت امام طواف کر رہے تھے اور حاجیوں کی جھرمٹ میں گھرے ہوے تھے۔ فرزدق شاعر نے دشمنوں کے سامنے امام کا تعارف کرواتے ہوئے کہا: یہ وہ ہیں جنہیں حل و حرم جانتے ہیں، یہ رسول اللہؐ کے فرزند اور حضرت زہراؑ کے تربیت یافتہ ہیں۔ آگے ایک بیت میں کہتے ہیں:
ما قال لا قط الا فی تشهدہ و لولا التشهد کانت لائه نعم
انھوں نے کبھی بھی حاجت مند اور سائل کے جواب میں ’’نہ‘‘ نہیں کہا، لفظ ’’نہ‘‘ فقط ان کے تشہد میں نظر آتا ہے۔ اگر تشہد نہ ہوتا تو وہاں بھی ’’ہاں‘‘ کہہ دیتے۔
بزدلی
وَ الْجُبْنُ مَنْقَصَةٌ؛ بزدلی منقصت ہے۔
جبن کی معنی کے بارے میں راغب اصفہانی لکھتے ہیں: ضعف القلب عما یحق ان یقوی علیہ[14]، جہاں قوت کی ضرورت ہو وہاں دل کی کمزوری کو جبن اور بزدلی ہتے ہیں۔
بزدلی اور بے جا ڈر ایک قسم کا عیب اور نقص ہے، یہ انسان کی نفسیات اور روح میں ایک قسم کے خلل کی نشانی ہے۔ اس کی ضد شجاعت ہے، جس طرح شجاعت ایمان کے ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے اور مومن کیلئے زینت شمار ہوتی ہے اسی طرح بزدلی ایک آفت اور مصیبت ہے جو کہ پریشانیوں کے نفوذ کی راہ ہموار کرتی ہے۔
امام صادقؑ فرماتے ہیں: ولا یومن رجل فیہ الشح والحسد والجبن ولا یکون المومن جبانا[15]، جس انسان میں بھی حرص حسد اور بزدلی ہوگی وہ کبھی بھی ایمان کی وادی میں قدم نہیں رکھ سکتا، اور مومن کبھی بھی بزدل نہیں ہوا کرتا۔
البتہ یاد رہے کہ تھوڑا بہت ڈرنا نفس کی سلامتی کی دلیل اور انسانی طبیعت کا لازمہ ہے، لیکن یہ ڈر اتنا زیادہ بھی نہ ہو کہ انسان کوئی بھی ذمہ داری انجام دینے کیلئے تیار نہ ہو وگرنہ یہ ایک مذموم صفت ہوگی۔ حفظان صحت کیلئے بیماریوں میں مبتلا ہونے کا ڈر انسان کو دار و درمان کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ کسی شاگرد کا امتحان میں فیل ہونے کا ڈر اسے محنت کرنے کی ترغیب دلاتا ہے۔ اولیائے خدا کا پروردگار سے ڈرنا انکی عرفانی اور معنوی ترقی کا باعث بنتا ہےجوکہ ان کے خدا سے تقرب کا ذریعہ ہے۔
مولا علیؑ فرماتے ہیں: کم من خائف وقد بخوفہ قرارہ الامن،[16] کتنے ہی افراد ایسے ہیں جو ڈر کی گزرگاہ سے امن امان کی منزل تک پہنچے۔
لیکن بے جا ڈرنا ایک نقص اور عیب ہے، یہ انسان کیلئے انتہائی مضر اور اس کی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کا بنیادی سبب نادانی اور جھالت ہے؛ جیسے فال بد سے ڈرنا، کچھ اعداد و ارقام کو نحس شمار کرنا، اپنی غلطی کو اس لیے تسلیم نہ کرنا کہ لوگ کیا کہیں گے وغیرہ۔ یہ تمام کے تمام انسان کی شخصیت کے متزلزل اور غیر پختہ ہونے یہ دلیل ہیں۔
فقر
وَ الْفَقْرُ يُخْرِسُ الْفَطِنَ عَنْ حُجَّتِهِ؛ فقر ہوشمند کو بھی اس کی حجت کیلئے گونگا بنا دیتا ہے۔
اس جملے میں امام فقر اور غربت کے مضر اثرات بیان کر رہے ہیں۔ فقیر انسان ایک طرف تو احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے جس وجہ سے اپنے اندر حقارت کا احساس کرتا ہے۔ وہ اگرچہ کتنا بھی زیرک، با ہوش، با استعداد و صلاحیت ہی کیوں نہ ہو لیکن احساس حقارت کی وجہ سے اپنی بات خود اعتمادی کے ساتھ بیان نہیں کر پاتا اور نہ ہی اپنے حقوق کا دفاع کر سکتا ہے۔
دوسری طرف کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اکثر لوگ اس کی بات کو اہمیت ہی نہیں دیں گے؛ جس کا سبب یہ ہے کہ اکثر لوگ دنیا پرست ہیں اور ان کی نگاہ میں دانائی اور نادانی کا معیار دنیا اور ثروت ہے اس وجہ سے فقیر لوگ اپنے احساسات کو ظاہر ہی نہیں کر پاتے اور حق بیان کرنے سے بھی کتراتے ہیں گویا کہ وہ گونگے ہوں۔
فقر اور غربت کی مذمت میں آئمہ کی بہت ساری روایات ملتی ہیں یہاں تک کہ بعض روایتوں میں اسے کفر سے تعبیر کیا گیا ہے[17]۔ اس بنیاد پر انہوں نے اپنے پیروکاروں او ر ماننےوالوں کو اس کا مقابلہ کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔ آج کل کی دنیا میں اگر ہم ایک سطحی مقایسہ بھی کریں تو معلوم ہوگا کہ دولتمند اور امیر لوگ اپنی ناحق باتوں کو بھی بڑی آب و تاب کے ساتھ بیان کر کے اسے منوا لیتے ہیں جبکہ غریب اور فقیر لوگ حق بات بھی اہل دنیا تک نہیں پہنچا پاتے۔
البتہ یہ کوئی کلی اور لازمی حکم نہیں ہے کہ جو استسثنا پذیرنہ ہو ۔ تاریخ میں ایسے بھی بہادر اور شجاع انسان نظر آتے ہیں جنہوں نے فاسق و فاجر حکمرانوں کے سامنے حق بیان کیا اور ان پر حجت تمام کی ہے اگرچہ اس اقدام کی قیمت میں انہیں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑا۔
لیکن بعض روایات میں فقر کی تعریف بھی کی گئی ہے بلکہ رسول پاک ﷺ نے اسے فخر شمار کیا ہے[18]۔ البتہ اس فقر سے مراد خدا کا محتاج ہونا ہے[19] جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہے کہ : يَُّا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلىَ اللَّهِ وَ اللَّهُ هُوَ الْغَنىُِّ الْحَمِيد[20]۔ اے لوگو تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تو بی نیاز اور لائق ستائش ہے۔
تنگدستی
حضرت کا چوتھا جملہ جو کہ حقیقت میں تیسرے جملے کو مکمل کر رہا ہے وہ یہ کہ : وَ الْمُقِلُّ غَرِيبٌ فِي بَلْدَتِهِ؛ تنگدست اور نادار انسان اپنے شہر میں بھی پردیسی ہے۔ کیونکہ پردیس میں آدمی کا کوئی بھی واقف کار اور آشنا نہیں ہوتا اس لئے وہ وہاں تنہائی کا احساس کرتا ہے، کوئی ایسا نہیں پاتا جس کے ساتھ اپنی خوشیاں یا غم بانٹے۔ پس غربت کاپردیس سے گہرا رابطہ ہےکیونکہ دنیا پرست لوگ دنیا کی بنیاد پر دوستیاں اور رشتے داریاں نبھاتے ہیں۔ جس کے پاس دنیا نہ ہو اس کا کوئی رشتے دار یا دوست نہیں ہوا کرتا لہذا وہ اپنے وطن میں ہی پردیسی لگتا ہے۔ اس کے برخلاف اگر کوئی دولتمند ہے تو اس کیلئے پردیس بھی دیس کی طرح ہے ۔
چوتھی حکمت
امام چوتھی حکمت میں پانچ صفتوں کو بیان فرما رہے ہیں جن میں سے ایک منفی اور بقیہ مثبت ہیں۔ ان میں ہر ایک کو آثار کے ساتھ مختصر جملے میں بیان کرنا امیر کلام کا ہی کارنامہ ہو سکتا ہے۔
الْعَجْزُ آفَةٌ وَ الصَّبْرُ شَجَاعَةٌ وَ الزُّهْدُ ثَرْوَةٌ وَ الْوَرَعُ جُنَّةٌ وَ نِعْمَ الْقَرِينُ الرِّضَى؛ عاجزی آفت، صبر شجاعت، زہد ثروت، پرہیزگاری سپر، اور انسان کا بہترین ساتھی رضائے الہی پر راضی رہنا ہے۔
عاجزی
پہلے جملے میں مولا عاجزی کی حقیقت کو یوں بیان کر رہے ہیں۔ الْعَجْزُ آفَةٌ؛ عاجزی آفت ہے۔
خود اعتمادی اور خود باوری، قدرت اور توانائی کی اساس اور بنیاد ہیں جو کہ انسان کیلئے قیمتی سرمایہ شمارہوتی ہیں۔ حقیقت میں ایجادات اور اختراعات وغیرہ خود اعتمادی کا ہی نتیجہ ہوتی ہیں۔جس سے ترقی کی راہیں کھلتی ہیں اور انسان ہر جہت سے کمال تک پہنچتا ہے۔ اس بنیاد پر ہر انسان کی قدر و قیمت اس کی ہمت کے مطابق ہوتی ہے۔ یعنی در واقع اس کی خود اعتمادی اور خود باوری کے مطابق ہوتی ہے۔
قرآن مجید کی بہت ساری آیات میں ذمہ داری اور تکلیف کا دارومدار توانائی کو بتایا گیا ہے؛ جیسے: لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَها[21] اللہ تعالی کسی شخص پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتا۔
اس قسم کی آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے نیک اور بد اعمال کا دارومدار اسکے عمل اور ارادے پر ہے۔ انسان کی سعادت اور شقاوت اس کے اعمال میں پوشیدہ ہے۔ افراد کی کامیابی اور ناکامی انکی توانائی اور عاجزی سے وابستہ ہے۔ مطلب یہ کہ ناتوانائی آفت ہے، اس سے جان چھڑانے کیلئے ہمیں اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کرنی ہوگی۔البتہ مخفی نہ رہے کہ یہاں عجز و ناتوانائی سے مراد وہ ناتوانائی ہے جسے دور کرنا انسان کے اختیار میں ہو مثلاً کوشش کرنے سے، لیکن اگر اس کا عجز غیر اختیاری اور قدرتی ہے تو اگرچہ وہ انسان بھی بہت سے کاموں سے عاجز وہ جاتا ہے لیکن اس کی وجہ سے اس کی مذمت نہیں کی جا سکتی۔
صبر
دوسرے جملے میں امام صبر کے مثبت آثار کی طرف اشارہ کرتے ہوے فرماتے ہیں: وَ الصَّبْرُ شَجَاعَةٌ: اور صبر شجاعت ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ صبر چاہے گناہوں سے پرہیز کی صورت میں ہو، چاہے نیکی کو انجام دینے کی صورت میں یا پیش آنے والی مشکلات کو برداشت کرنے کی صورت میں؛ ان میں سے ہر ایک شجاعت اور بہادری کی عکاسی کرتا ہے۔ کیونکہ شجاعت فقط ظاہری انسانی دشمن کا مقابلہ کر کے اس کے خون بہانے کا نام نہیں ہےبلکہ کامیابی کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ سے مقابلہ کرنا شجاعت کہلاتا ہے۔
رسول کائناتؐ کا ارشاد گرامی ہے: الصبر ثلاثہ صبر عند المصیبہ صبر علی الطاعہ صبر عن المعصیہ [22]؛ صبر کی تین قسمیں ہیں، مصیبت پر صبر کرنا، اطاعت پر صبر کرنا اور گناہ پر صبر کرنا۔
زہد
تیسرے جملے میں امامؑ زہد کی فضیلت کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں : وَ الزُّهْدُ ثَرْوَةٌ؛ اور زہد ثروت ہے۔
اس جملے کی وضاحت کیلئے پہلے ہمیں زہد کا مفہوم معلوم کرنا ہوگا پھر ثروت کا اور آخر میں ان کی نسبت دریافت کرنا ہوگی۔ عام طور پر زہد کی تعریف دنیا سے کنارہ کشی کرنا، دنیا کی زرق و برق سے دوری کرنا، کی جاتی ہے جو کہ اسلامی تعریف نہیں ہے۔ اسلام کی نظر میں زاہد وہ نہیں جس کے پاس دنیا نہ ہو بلکہ زاہد وہ ہے جو دینا کا دلدادہ اور غلام نہ ہو۔ [23]مولاؑ فرماتے ہیں پورے کا پورا زہد اس آیت میں بیان کیا گیا ہے: لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَ لا تَفْرَحُوا بِما آتاكُم[24] تاکہ جو چیز تم لوگوں کے ہاتھوں سے چلی جائے اس پر تم رنجیدہ نہ ہو اور جو چیز تم لوگوں کو عطا ہو اس پر اترایا نہ کرو۔
ثروت کی معنی سرمایہ اور دولت ہے۔ کیونکہ دولت اور سرمایہ کے ذریعہ انسان اپنی ضروریات پوری کر سکتا ہے، جس وجہ سے وہ دوسروں سے بے نیاز بن جاتا ہے۔ اس بیان کی روشنی میں واضح ہو جاتا ہے کہ زہدکیونکر ثروت ہے، کیونکہ زاہد انسان دنیا سے بے نیاز بن جاتا ہے اس لیے زہد بہت بڑا سرمایہ ہے۔
رسول اکرمﷺ مولا علیؑ کو فرماتے ہیں: یا علی ان اللہ قد زینک بزینہ لم یزین العباد بزینہ احب الی اللہ منھا زینک بالزھد فی الدنیا[25] اے علی اللہ تعالی نے آپ کو ایک ایسی زینت سے مزین فرمایا ہے جس سے اچھی زینت کسی کو عطا نہیں فرمائی، اللہ تعالی نے دنیا میں تمہیں زہد کی زینت سے نوازا ہے۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ زہد انسان کو بہت ساری دوسری صفات حمیدہ سے بھی مزین کر دیتا ہے۔ جیسا کہ امام صادقؑ کا فرمان ہے: جعل الخیر کلہ فی بیت و جعل مفتاحہ الزھد فی الدنیا ۔۔۔ حرام علی قلوبکم ان تعرف الایمان حتی تزھد فی الدنیا؛[26] تمام نیکیوں کو ایک گھر میں جمع کیا گیا ہے جس کی کنجی زہد ہے۔ پھر فرمایا: ایمان کی شیرینی اور مٹھاس تمہارے دلوں پر حرام ہے یہاں تک کہ دنیا میں زہد اختیار کرو۔
ورع اور پرہیزگاری
وَ الْوَرَعُ جُنَّةٌ؛ پرہیزگاری سپر اور (شیطانی وسوسوں سے بچنے کا) ڈھال ہے۔
ورع، تقوی کے اعلا درجے کا نام ہےیہاں تک کہ انسان مشکوک چیزوں اور مشتبہ موارد میں بھی پرہیز کرے۔ اس انسانی فضیلت کا سرچشمہ باطن میں موجود خدا ترسی ہے۔جو کہ انسان کے اندر ایسی توانائی ایجاد کرتی ہے جس بنیاد پر وہ ان موارد میں پرہیز کرنے لگتا ہے۔
اس جملے میں امام نے ’’ورع‘‘ کی بڑی مناسب تعبیر استعمال کی ہے، کیونکہ ڈھال دشمن کے تیر اور تلوار کے مقابلے میں دفاع کا وسیلہ ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نفس اور شیطان، قلب انسان پر مسلسل تیر برساتے رہتے ہیں جس سے انسان صرف ورع کے ذریعہ سی ہی بچ سکتا ہے۔
رسول اللہ کی حدیث میں ہے: لکل شی اس و اس الایمان الورع؛[27] ہر چیز کی اساس اور بنیاد ہوا کرتی ہے، ایمان کی بنیاد ورع ہے۔
امامؑ کا فرمان ہے: علیک بالورع فانہ عون الدین و شیمہ المخلصین[28]؛ ورع اختیار کرو کیونکہ ورع دین کا مددگار اور خدا کے مخلص بندوں کا شیوہ ہے۔
بہترین ہمنشین
پھر آخری جملے میں فرماتے ہیں: وَ نِعْمَ الْقَرِينُ الرِّضَى؛ اور انسان کا بہترین ساتھی رضائے الہی پر راضی رہنا ہے۔
بہترین دوست وہ ہوتا ہے جو انسان کو سکون پہنچائے اور مشکلات کے مقابلے میں حوصلہ دے، اس میں امید کی روح پھونکے۔ یہ تمام کے تمام آثار قضائے الہی پر راضی رہنے میں بھی ہیں۔ پس وہ بہترین دوست ہے۔ جو بھی مقدرات کو خداوند متعال کے طرف سے جانتا ہے وہ کبھی بھی دنیا میں پیش آنی والی مشکلات پر پریشان نہ ہوگا۔
البتہ اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ انسان مشکلات کے آگے سر تسلیم ہو جائے بلکہ اس کی معنی یہ ہے کہ مشکلات کو حل کرنے کیلئے اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لائے۔ لیکن اگر کوئی ایسا حادثہ رونما ہو جائے جو اس کی قدرت سے باہر ہو تو وہاں راضی رہے اور گلہ شکوہ نہ کرے۔[29]
آخر میں دعا ہے کہ پاک پروردگار ہمیں مولا علی علیہ السلام کے ان حکیمانہ ارشادات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
منابع
- قرآن مجيد
- نهج البلاغه، سيد رضي، مصحح صبحي صالح، موسسه دار الهجره، قم.
- ابن ابي الحديد ،عز الدين ابو حامد ، کتابخانه عمومي آيت الله مرعشي، قم، 1341، ه.ش
- آمدي ،عبد الواحد بن محمد تميمي ، غرر االحکم، انتشارات دفتر تبليغات، قم، 1366، ه.ش
- حراني،حسن بن شعبه، تحف العقول، انتشارات جامعه مدرسين قم، 1404، ه.ق
- راوندي ، قطب الدين، سعيد الدين هبه الله ، منهاج البراعه ،کتابخانه عمومي آيت الله مرعشي، قم، 1364، ه.ش
- رضي، تنبيه الغافلين، مترجم ملا فتح الله کاشاني، انتشارات پيام حق، تهران، اول 1378، ه.ش
- شيخ الاسلامي ،سيد حسين ، گفتار امير المومنين، اتشارات انصاريان، قم، چهارم، 1377، ه.ش
- صدوق، علي بن محمد، صفات الشيعه، انتشارات اعلمي، تهران
- صدوق، علي بن محمد، امالي، انتشارات کتابخانه اسلاميه، 1364، ه.ش
- طوسي،محمد بن حسن، امالي، انشارات دار الثقافه، قم، 1414، ه.ق
- کلینی، محمد بن يعقوب،کافي ، دار الکتب الاسلاميه، تهران، 1365، ه.ش
- مجلسي، بحار الانوار، موسسه الوفاء، لبنان، 1404، ه.ق
- نقوي ،سيد محمد تقي ، مفتاح السعاده، مکتبه المصطفوي، تهران.
- هاشمي خوئي ،ميرزا حبيب الله ، منهاج البراعه، مکتبہ الاسلاميه، تهران، سوم، 1355.
حوالہ جات
[1] ۔ شيخ صدوق، امالي، ، ص۳۴۳،انتشارات کتابخانه اسلاميه، 1364، ه.ش
[2] ۔بهجالصباغةفيشرحنهجالبلاغة، ج 1، ص 60
[3] ۔ عز الدين ابو حامد، ابن ابي الحديد، نہج البلاغہ، ج۱۹، ص۵۰، کتابخانه عمومي آيت الله مرعشي، قم، 1341، ه.ش
[4] توضیح نہج البلاغہ، ج۴، ص۲۶۱
[5] شيخ صدوق، صفات الشيعة، يك جلد، انتشارات اعلمى تهران، ص 35.
[6] ۔ کليني، محمد بن يعقوب، کافي،ج2، ص231، دار الکتب الاسلاميه، تهران، 1365، ه.ش
[7] نهج البلاغهى صبحى صالح، کلمات قصار، شماره 289 وبحار، ج 67 ص،۳۱۴
[8] سورت ضحی، آیت۱۱۔
[9] اختیار مصباح السالکین، ص۵۷۸
[10] ۔ حسن بن شعبه، حراني، تحف العقول،ص91، انتشارات جامعه مدرسين قم، 1404، ه.ق
[11] ۔منہاج البراعہ، ج۱۱، ص۱۱
[12] قطب الدين، سعيد الدين هبه الله راوندي، منهاج البراعه ،ج۳، ص۳۸۳، کتابخانه عمومي آيت الله مرعشي، قم، 1364، ه.ش
[13] شيخ طوسي، امالي،ج2، ص283، انشارات دار الثقافه، قم، 1414، ه.ق
[14] ۔مفردات، ص۸۷
[15] سفينه البحار، ج1، ص145
[16] سيد حسين شيخ الاسلامي، گفتار امير المومنين،ج1، ص535، اتشارات انصاريان، قم، چهارم، 1377، ه.ش
[17] سيد رضي، تنبيه الغافلين، مترجم ملا فتح الله کاشاني،ج2، ص464، انتشارات پيام حق، تهران، اول 1378، ه.
[18] سيد محمد تقي نقوي، مفتاح السعاده، ج1، ص8،مکتبه المصطفوي، تهران.
[19] منھاج البراعہ، ج۱۷، ص۱۵۳
[20] سورہ فاطر، آیہ ۱۵
[21] .سورہ بقرہ، آیہ ۲۸۶
[22] کافی، ج۲، ص۹۱
[23] پیام امام، ج۱۲، ص۴۶
[24] ۔سورہ حدید، آیہ ۲۳
[25] ۔ مجلسی، بحار الانوار، ج۳۹، ص۲۹۷، ح۱۰۳، موسسه الوفاء، لبنان، 1404، ه.ق
[26] ۔کافی، ج۲، ص۱۲۸، ح۲
[27] ۔کنز العمال، ح۷۲۸۴
[28] ۔ عبد الواحد بن محمد تميمي آمدي، غرر االحکم، ح5915،انتشارات دفتر تبليغات، قم، 1366، ه.ش
[29] پیام امام، ج۱۲، ص۴۹