شرح کلمات قصار نہج البلاغہ
محقق: ملک جرار عباس یزدانی
(۱)
حکمت: (۴۷) قال علی علیہ السلام: وعفتہ علی قدر غیرتہ: ترجمہ: اور (مردکی) عفت کا پیمانہ غیرت و حیا ہے۔[۱]
آج کے زمانے میں لفظ غیرت زبان زد عام ہے اور مختلف مواقع اور مناسبتوں سے کثرت سے سننے کے لیے ملتا ہے ۔ لیکن غیرت کے سلسلے میں عوام اور خواص کے ذہنوں میں کچھ ابہامات اور شکوک و شبہات (Doughts) پائے جاتے ہیں لہذا غیرت کے مفہوم اور اس کی اقسام سے آشنائی بہت ضروری ہے یہاں غیرت کے سلسلے میں امیرالمومنین علیہ السلام کے مندرجہ بالا فرمان کی روشنی میں کچھ عرائض قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
غیرت
احیای غیرت آج کے زمانے میں انسان کااصل وظیفہ ہے انسانی طبیعت دوسرے افراد کی بے جا مداخلت (Interfere) کو نا پسند کرتی ہے لہذا جب بھی کوئی کسی انسان کے کام میں مداخلت کرتا ہے تو وہ انسان اس کا عکس العمل ظاہر کرتا ہے مرحوم نراقی نے جامع السادات میں نقل کیا ہے کہ غیرت: ایسی چیز کی حفاظت کی کوشش کرنا کہ جس کی حفاظت ضروری ہے ۔[۲] ،علامہ طبا طبائی فرماتے ہیں : غیرت یعنی انسان کے وجود میں تلاطم ایجاد ہونا اور حالت اعتدال سے خارج ہونا ۔ اور اپنی ناموس ،دین ،یا مقدسات کے دفاع میں عکس العمل ظاہر کرنا ۔ غیرت ایک فطری امر ہے اس کے کچھ دوسرے معانی بھی ذکر ہوئے ہیں۔[۳]
بہرحال غیرت جو کہ ایک فطری چیز ہے معاشرے میں احساس ذمہ داری اور پاکسازی کے لیے مہم ترین عوامل میں سے ہے غیرت انسان کی دفاعی طاقت کو ابھارتی ہے اور انسان اپنی تمام ذخیرہ شدہ طاقت(Stored Power)کو اپنے اہداف کے لیے استعمال کرتا ہے۔احساس غیرت جوانوں کے اندر بہت ذیادہ مقدار میں موجود ہوتا ہے اگر اس مخفی طاقت (Hidden Power)کو صحیح طریقے سے استعمال نہ کیا جائے تو اس بات کا بہت زیادہ خطرہ موجود ہے کہ یہ احساس جھوٹی غیرت مندیوں میں ضائع ہو جائے گا۔
غیرت ایک پسندیدہ صفت ہے اور اسلام نے اس کی جانب خصوصی توجہات مبذول کی ہیں اور اسلام یہ چاہتا ہے کہ یہ احساس (Feeling)انسان کے اندر خاموش اور ضائع نہ ہو ۔ دینی نظام کے اندر خدا وند عالم غیور ہے اور خدا مومنین کی ہتک حرمت کے سلسلے میں رد عمل(Reaction)ظاہر کرتا ہے ۔ اس لیے روایات میں آیا ہے کہ ( ان اللہ یغار للمومن فلیغر فانہ منکوس القلب)[۴]خدا وند عالم مومنین کے لیے غیرت ظاہر کرتا ہے پس مومن کو بھی غیور ہونا چاہیے اور جو کوئی غیرت نہیں رکھتا اس کا دل سیاہ ہے۔اس طرح کی او روایات بھی موجود ہیں مثلا روایات میں اولیا ء الھی کی ایک بہترین صفت(Best Quality)غیرت بیان کی گئی ہے رسول خدا ص ارشاد فرماتے ہیں کہ :(کان ابی ابراہیم غیور و انا غیر منہ وارغم اللہ انف من لا یغار من المومنین)۔[۵]
میرے جد ابراہیم غیرت مند تھے اور میں ان سے بھی زیادہ غیرت مند ہوں ۔ خدا اس شخص کوذ لیل کرے جو مومنین کی غیرت کو نہیں مانتا
اور تاریخ میں یہ بات اظہر من الشمس ہےکہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی صفات حمیدہ میں سے ایک ممتاز صفت(Prominant Quality) غیرت تھی جب کفار اور مخالفین اسلام کی طرف سے اسلام کو توہین یا دھمکی آمیز زبان استعمال کی جاتی تو آپ بہت زیادہ غیرت اسلامی اور دینی کا مظاہرہ کرتے جیسا کہ ایک مشہور و معروف واقعہ جو تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ معاویہ کے لشکریوں میں سے ایک شخص نے جب ایک مسلمان عورت اور ایک ذمی عورت کے زیورات چھین لیے تو آپ نے ایک معروف(Famous) اور تاریخی (Historic) اور غیرت اور عزت سے سر شار جملہ(Sentence) ارشاد فرمایا آپ فرماتے ہیں:( کہ اگر اس واقعے کے سننے کے بعد کوئی مسلمان مرد شرم و حیا سے مر جائے تو یہ کوئی ملامت کی بات نہیں ہے بلکہ مومن مردوں کا یہی شیوہ ہے ۔[۶]
ایک اور مشہور و معروف واقعہ جو آپ کی حیات مبارکہ میں ملتا ہے کہ جس سے آپ کی غیرت مندی اور جرات و شھامت کا احساس ہوتا ہے کہ حج کے ایام میں ایک جوان کو خانہ کعبہ میں دیکھا گیا کہ جس کا رخسار سرخ ہو رہا تھا اس سے جب اس کی علت (Reason)پوچھی گئی تو اس نے کہا کہ حضرت علی علیہ السلام نے مجھے تھپڑ مارا ہے اور جب اس بدنی تنبیہ کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام سے سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا ( رایتہ حرم المسلمین) میں نے اسے دیکھا کہ یہ مسلمانوں کی ناموس کی طرف گندی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ۔[۷]اس طرح کی اور روایات بھی سیرت معصومین میں موجود ہیں جن کو نقل کرنے سے ہم صرف نظر(Avoid)کرتے ہیں کیونکہ ہمارے مد نظر کچھ محدودتیں (Limitations)ہیں اور طول شاید مناسب (Suitable)نہ ہو اس لیے ہم یہاں حضرت علی علیہ السلام کی غیرت کے متعلق اس فرمان کی روشنی میں کچھ دیگر توضیحات بیان کریں گے۔
غیرت کی اقسام:
علامہ طبا طبائی غیرت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان کے اندر ایک طاقت موجود ہے کہ جو اسے مجبور کرتی ہے کہ جو چیزیں اس کے نزدیک قابل احترام ہیں ان کا دفاع کرے ۔[۸]
مرحوم نراقی جامع السادات میں غیرت کی چار اقسام بیان کرتے ہیں۔
۱۔ غیرت دینی ۲۔ غیرت مالی ۳۔ غیرت ناموس ۔ ۴۔ غیرت اولاد
اس بارے میں آیت اللہ مکارم شیرازی فرماتے ہیں کہ اگرچہ غیرت کا لفظ اکثر طور پر ناموس کی غیرت کے متعلق استعمال ہوتا ہے لیکن اس کا مفہوم (Meanings)بہت وسیع ہے اور یہ تمام انسانی اور اعلیٰ اقدار(Best Qualities) کو شامل ہے ۔ [۹]لہذا اس مشہور نظریہ کے بر عکس کہ غیرت کو صرف ناموس کی حد تک رکھا جاتا ہے اور جیسا کہ خصوصا ہمارے معاشروں میں یہ صرف مردوں سے مختص چیز ہے غیرت ایک ایسی اچھی صفت ہے کہ جو ہر مسلمان مرد اور عورت کو شامل ہے اگرچہ ہو سکتا ہے کہ غیرت کی شدت(Intensity) اور ضعف میں مردوں اور عورتوں میں تھوڑا فرق ہو۔
لہذا غیرت ایک ایسی طاقت(Power) اور قوت کا نام ہے کہ جس کے ذریعے انسان اپنے مادی اور معنوی سرمائے کی اور اس کے ساتھ امت اور معاشرے کی حفاظت اور دفاع کا فریضہ سر انجام دیتا ہے ۔غیرت کے مفہوم میں ایک عنصر(Element)غیرت دینی ہے کہ جس کا استعمال امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں ہوتا ہے اور یہ غیرت کسی ایک فرد مثلا مرد یا عورت سے مختص(Specific)نہیں ہے بلکہ ہر بالغ اور عاقل انسان مسلمان کا یہ فریضہ ہے کہ وہ احکام الیہ کے اجراء اور نفاذ کے لیے عملی جد و جہد(Practical Struggle) کرے ۔ شاید یہ کہنا نامناسب نہ ہو کہ مسلمان عورت کا پردہ غیرت دین کا ایک ایسا لباس ہے کہ جس سے خدا ئے متعال نے اس کے وجود کو آراستہ کیا ہے اس طرح غیرت کا اہم ترین رکن حریم مقدس ولایت کا دفاع ہے کہ جو حضرت زہرا سلام اللہ علیہ نے انجام دیا اور شاید بی بی دو عالم ان ہستیوں میں سے ہیں کہ جنہوں نے بہت زیادہ اصرار(Insisit) اورالحاح کے باوجود بھی کسی خلیفہ ناحق کی بیعت نہیں کی ۔ اور انکی یہ سیرت ہی ہمارے لیے بھی درس ہے اور غیرت دینی ہم ان محترمہ سے سیکھ سکتے ہیں۔
غیرت دینی:
غیرت دینی یعنی بغیر وقفہ کے اسلامی اور دینی احکام کے فروغ اور نفاذ کے لیے کوشش اور جدو جہد(Struggle) کرنا ہے مسلمان اور مومن غیور ہمیشہ اپنے آپ کو دین کی راہ میں قربان اور فدا کرنے کے لیے تیار رکھتا ہے ۔ غیرت دینی کی یہ صفت(Quality) انسان کو اس طرح تیار( Ready) اور آمادہ کرتی ہے کہ وہ جب بھی دیکھتا ہے کہ دین یا دینی اقدار خطرے میں ہیں تو وہ فورا رد عمل ظاہر کرتا ہے تا کہ دین کی پاسداری کر سکے۔
ہر انسان کے چار مہم ترین اخلاقی وظائف ہیں۔
۱۔ وظیفہ قومی و ملی:
جن میں وحدت عمومی کو مد نظر رکھا جاتا ہے غیرت ملی اور قومی اپنے وطن اور ملت(Nation)کا دفاع کرنا ہے۔(جھاد)
۲۔ وظیفہ دینی:
دینی وظیفہ یعنی احکام اور اقدار کی پاسبانی اور حفاظت اور معنوی اقدار کا دفاع غیرت دینی سے متعلق ہے ۔
۳۔ وظیفہ حقوقی:
حقوقی وظیفہ یعنی قوانین اور اصولوں کا دفاع غیرت حقوقی سے معاشرہ(Society) اور عائلی زندگی ارتقاء(Evolution) کرتی ہے۔
۴۔ وظیفہ اقتصادی:
یہ بھی انسان کا فرض ہے کہ وہ اچھی اور منافع بخش چیزیں پیش کرے غیرت اقتصادی اور مالی کا تقاضہ یہ ہے کہ انسان اپنے خاندان اور معاشرے کی مالی ضروریات کو پورا کرے۔
یہاں یہ نقطہ بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔کہ غیرت اور حمیت میں فرق(Difference)موجود ہے ہمارے معاشرے میں اکثر حمیت کو غیرت کے ساتھ مکس ( MIX)کر دیا جاتا ہے درحالانکہ ان دونوں میں فرق موجود ہے حمیت اس آگ اور حرارت کو کہتے ہیں کہ جو انسان کے بدن میں تعصب ، حسد یا نفاق کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ۔جبکہ غیرت کو خشم مقدس سے تعبیر کیا جاتا ہے اور غیرت کا مفہوم یعنی معاشرے میں پیدا ہونی والی برائیوں اور انحرافات کے مقابلے میں رد عمل(Reaction)ظاہر کرنا ہوتا ہے تاکہ گناہ اور برائی زیادہ نہ پھیل سکے۔
غیرت ناموس:
غیرت دینی کا ایک حصہ صرف مسلمان مردوں سے مخصوص (Specific) ہے اور وہ یہ کہ مسلمان مرد کی غیرت مسلم معاشروں (Muslim Societies) کی عورتوں کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ اس چیز کو غیرت ناموس سے تعبیر کیا جاتا ہے ہر مسلمان مرد کی سوچ کے مطابق (غیرت)غیرت ناموس کا نام ہے ۔ کیونکہ ہر مسلمان مرد کی نظر میں ایک مسلمان عورت اسلام کا سر مایہ ہے اور اسلام نے اس کی حرمت اور تقدس کا خاص خیال رکھا ہے اور یہ تقدس اسکے وجود میں ودیعت کر دیا گیا ہے کیونکہ ایک مسلمان عورت کی توہین پورے اسلامی معاشرے کی توہین ہے اور اسلامی نقطہ نگاہ سے تمام مسلمان ایک دوسرے سے وابستہ (Linked) ہیں کیونکہ انسان کی شناخت (Identity) اور حیثیت ایک مرتبہ اس کی ذات سے متعلق ہے اور ایک دفعہ اس کے مکتب سے ، اور ایک مسلمان عورت مکتب اسلام کی مجسم حیثیت کا نام ہے لہذا ایک مسلمان مرد جس طرح اپنے خاندان یا محارم سے متعلق کسی قسم کی توہین برداشت نہیں کر سکتا اسی طرح وہ ایک مسلمان عورت کی توہین اور ہتک حرمت بھی برداشت نہیں کرتا اور جب بھی وہ اس کا مشاہدہ (Observation) کرے گا حتما غیرت مند مسلمان مرداس کا دفاع کرے گا۔
حجاب ایک احترام اور عزت اور ایک اعزاز ہے کہ جو خدا وند عالم کی طرف سے عورت کو عطا کیا گیا ہے اور مرد کو اس کی حفاظت اور پاسداری کا وظیفہ سونپا گیا ہے لہذا غیرت ناموس ایک فریضہ الھی ہے جو ایک غیورمرد مسلمان کو سونپا گیا ہے۔
غیرت کی اساس اور ارکان:
غیرت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان بے جا غصہ کرتا رہے اور عورتوں کے لیے ایک طرح کا ڈکٹیر(Dictator)بن جائے غیرت ناموس میں دونوں افراد مرد اور عورت کے لیے حجاب اور اس کی حدود مشخص کی جائیں گی ۔ اور اس لیے غیور کی کچھ خاص شرائط بیان کی گئیں ہیں اگر وہ انسان میں نہ ہوں تو وہ غیور نہیں کہلائے گا۔
۱۔ ایمان:
غیرت کےارکان اور عناصر (elements) میں سے ایک مہم ترین رکن ایمان ہے کیونکہ ایمان کی طاقت انسان کو سستی ، کاہلی اور غیر جانبداری سے روکتی ہے اور ایمان انسان کو ایک وظیفہ شناس مسلمان بناتا ہے اس لیے امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں (غیرۃ الرجل ایمان] مرد کی غیرت اس کا ایمان ہے۔[۱۰]
یا آپ ایک دوسرے فرمان میں ارشاد فرماتے ہیں (ان الغیرۃ من الایمان) [۱۱]،غیرت ایمان کی نشانیوں (Symbols) میں سے ہےکیونکہ غیرت کا مطلب اقدار کا دفاع ہے اور جس قدر انسان کے ایمان میں اضافہ ہو گا اس کی غیرت بھی بڑھے گی۔
۲۔ عفت اور پاکدامنی:
عفت اور پاکدامنی فقط یکطرفہ(One sided) نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق جس طرح عورت سے ہے اسی طرح مرد سے بھی ہے بلکہ شاید بعض جھات سے عفت اور پاکدامنی مرد کے لیے ضروری ہے ۔ امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ غیرۃ الرجل عفتہ (مرد کی غیرت اس کی عفت اور پاکدامنی ہے) لہذا ضروری ہے کہ مرد پہلے خود پاکدامن ہو تاکہ وہ دوسروں کو غیرت کا درس دے کیونکہ مرد جتنا غیور ہوگا اتنا ہی پاکدامن ہو گا ۔ اور ایک اور روایت میں آیا ہے کہ( دلیل غیرت الرجل عفتہ)[۱۲] (مرد کی غیرت کی دلیل اس کی عفت و پاکدامنی ہے)۔ہر چیز کی ایک علامت ہوتی ہے اور مرد کی غیرت کی علامت اسکی عفت ہے ۔ عفت کا معنی اپنی حفاظت ہے اور ان دونوں چیزوں عفت اور غیرت کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔
۳۔ شجاعت:
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں (ثمرۃ الشجاعۃالغیرۃ )[۱۳]غیرت شجاعت کا ثمر اور پھل ہے ۔اسی طرح مرحوم نراقی فرماتے ہیں کہ غیرت کی اساسشجاعت اور قوت نفس ہے اور بزدل اور خوف میں مبتلا انسان دوسروں کے حملوں(Attacks) اور تہاجمات کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
۴۔ معرفت:
غیرت کے ارکان میں ایک مہم اساس اور رکن معرفت ہے ۔ اگر کسی کو یہ احساس اور علم نہ ہو کہ عورت امت اور اسلام کے لیے کتنا بڑا سرمایہ ہے تو وہ اس کی حفاطت کی میں غیرت کا مظاہرہ نہیں کرے گا لہذا شناخت اور معرفت غیرت کے اساسی ارکان(Basic Points) میں سے ہے۔
غیرت کی حدود:
غیرت کی حدود و قیود (Limits) مشخص ہیں یعنی ایسا نہیں ہے کہ مرد غیرت کواپنے لیے قدرت مطلق تصور کریں بلکہ غیرت کے بارے میں امیرالمومنین علیہ السلام ایک طرف مردوں کو دعوت غیرت مندی دے رہے ہیں اور دوسری طرف معاشرے میں بگاڑ ، زیادہ روی اور افراط کی ممانعت کر رہے ہیں ۔
امام فرماتے ہیں (اما تستحیون ولا تغارون نساءکم یخرجن الی الاسواق یزاحمن العلوج فی الاسواق آلا تغارون؟)[۱۴]( آیا تمھیں شرم و حیا نہیں آتی اور تمھاری غیرت نہیں جاگتی کہ تمھاری عورتیں بازاروں میں جاتی ہیں اور جوان مردوں(یعنی انکی سوچ اورفکر ) کو مشوش کرتی ہیں ۔دوسری روایت میں فرماتے ہیں مجھے خبر ملی ہے کہ تمھاری عورتیں راستوں میں مردوں سے باتیں کرتی ہیں اور اکھڑدکھاتی ہیں کیا تمھیں شرم نہیں آتی؟[۱۵]،لیکن دوسری طرف غیرت کے درست اظہار کی ترغیب کرتے ہیں کیونکہ بے جا غیرت کا مظاہرہ کرنا اور بغیر کے اس کا اظھار (Express)کرنا مشکلات کھڑی کر سکتا ہے لہذا امام نامہ ۳۱ میں فرماتے ہیں (ایاک والتغایر فی غیر موضع غیرہ فان ذلک یدعوالصحیحہ الی الغم والبریئہ الی الریب ۔۔۔۔) [۱۶] دیکھو خبردار غیرت کے مواقع کے علاوہ غیرت کا اظہار مت کرنا کہ اس طرح اچھی عورت بھی برائی کے راستے پر چلی جائے گی اوبھی مشکوک(Doughtfull)ہو جاتی ہے۔ امام صادق علیہ السلام بھی غیرت کی حدود و قیود اور اس میں افراط اور زیادہ روی روکنے کے لیے ارشاد فرماتے ہیں کہ (لا غیرت فی الحلال) حلال کاموں میں غیرت نہیں ہے ۔[۱۷] یعنی بعض لوگ افراط و تفریط کا شکار ہو کر ایسی جگہوں پر بھی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہیں جہاں نہیں کرنی چاہیے لہذا شریعت کے وہ حلال امور جن میں خود شریعت نے اجازت (Permission) دی وہاں انسان کو غیرت کا بے جا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے دوسری طرف روایت میں دوسروں کی طرف غلط اور گندی نگاہ سے منع کیا گیا ہے کیونکہ ایک غیرت مند مسلمان مرد کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ دوسروں کی ناموس کی طرف غلط نگاہیں کرے ۔لہذا امام صادق علیہ السلام اس کے عواقب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں (اما یخشی الذین ینظرون فی ادبار النساء ان یبتلوا بذلک فی نسائھم) [۱۸]آیا جو کوئی دوسروں کی عورتوں کی پشت پر نگاہ کرتا ہے کیا وہ نہیں ڈرتا کہ اس کی عورتیں بھی اس میں مبتلا ہو جائیں(یعنی کوئی دوسرا ان کی طرف نگاہ کرے)شاید اسی وجہ سے امیرالمومنین علیہ السلام ایک مردغیور کی ایک صفت (Quality)کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں (ما زنی غیور قط) [۱۹] غیرتمند آدمی کبھی زنا نہیں کرتا۔
گفتار آخر:
یہاں ہم غیرت سے متعلق چند کلمات ذکر کر کے اس بحث کو سمیٹ رہے ہیں کہ اسلام میں اخلاقی اقدار کی حفاظت کا غیرت کے ذریعے دفاع ضروری قرار دیا گیا ہے کیونکہ ایک غیور انسان معاشرے کی سلامتی کے لیے ہمیشہ حساسیت(Sensitivity)کا مظاہرہ کرتا ہے غیرت معاشرہ کے وظیفہ شناس اور آگاہ لوگوں کا راستہ ہے لہذا آج کے اس پر آشوب اور اخلاقی اقدار کے انحطاط کے دور میں ضروری ہے کہ صفت غیرت کو نوجوانوں کے اندر اجاگر کیا جائے تا کہ وہ اپنی اس مخفی طاقتHidden) Power)کے ذریعے معاشرے میں مثبت کردار(Positive Response)ادا کر سکیں ۔ آج اسلام دشمن طاقتوں کی یہ بھرپور(Full)کوشش ہے کہ مسلم معاشرہ سے صفت غیرت کو مٹا دیا جائے تاکہ اس معاشرہ کا عظیم سرمایہ جو جوان لڑکیوں اور لڑکوں کی صورت میں ہے وہ ضائع ہو جائے کیونکہ ایک یہی وہ عنصر(Element)ہے کہ جو ہمیں دشمن کے مقابلے میں کھڑا ہونے کی طاقت اور حوصلہ دیتا ہے۔لہذا آج کے دور میں بالعموم معاشرے کے تمام افراد اور بالخصوص علماء کی یہ ذمہ داری(Responsibilty) ہے کہ وہ نوجوانوں کے اندر اس کو زندہ رکھنے کے لیے مختلف ذرائع ابلاغ مثال کے طور پر مذہبی فلموں ، مطبوعات ، تبلیغ ، کتب اور جرائد کے ذریعے استفادہ کریں ۔ کیونکہ اسلام میں غیرت بہت اہمیت (Importance)کاحامل مفہوم ہے اگر کسی موقع پر انسان کی جان بھی اس راستے میں چلی جائے تو شاید وہ رائیگاں نہ ہو۔
(۲)
قال علی علیہ السلام:ان اغنی الغنی العقل۔۔۔ بہترین دولت و ثروت عقل ہے۔[۲۰] نہج البلاغہ،حکمت ۳۸،
اسلام دین عقل ہے اور مکتب اہل بیت میں اسے حجت باطنی اور رسول باطنی سے تعبیر کیا گیا ہے،یہاں امیر االمومنین ع کے اس فرمان کی روشنی میں کے جس میں عقل کو سب سے بڑی دولت قرار دیا گیا کچھ عرائض صفحہ قرطاس پر منتقل کریں ۔ ابتداء میں ہم عقل کے بارےکچھ لغوی اور اصطلاحی بحث کریں گے اور اس کے بعد مقالہ کی گنجائش کے مطابق کچھ مزید گفتگو کریں گے۔ لفظ "عقل” ایک ایسی اصطلاح ہےجس کی ہر علم اور ہر نظریہ کے مطابق خاص تعریفیں کی گئی ہیں اور ان معانی میں پائے جانے والے فرق Difference کی وجہ سے ہمیشہ غلط فہمیاں پیدا ھوئی ہیں- عقل کی اصطلاح کے بارے میں یہ پیدا شدہ ابہام کیوجہ صرف علوم کےخصوصی ھونے کی پیچیدگی Complexicity سے متعلق ہے نہ یہ کہ عقل ذاتی طور پر ابہام رکھتی ھو۔
لغت میں عقل:
لفظ عقل اور اس کے مشتقات کے معنی ، سمجھنا ، حاصل کرنا اور قابو Control میں کرنا هے۔[۲۱]
اصطلاح میں عقل:
وه بسیط جوهر هے جس کے ذریعه لوگ واقعیتوں کا پتا لگاتے هیں لهذا عقل یعنی واقعیت کو معلوم کرنا هے ، حقیقتوں کومعلوم کرنے کے علاوه عقل ، نفس ناطقه کی محافظ اور اسے شرف بخشنے والی بھی هے [۲۲]اور قرآن مجید میں درک و فهم کے معنی میں استعمالUse هوا هے، روایات میں انسان کے درک کرنے ، تشخیص دینے ، نیکیوں پر آماده کرنے اور برائیوں و فتنه و فساد سے روکنے کی طاقت Powerکے معنی میں هے۔[۲۳]
فلاسفہ کی نظر میں عقل کی مختلف اقسامTypes اور درجےهیں:
1۔ نظری عقل؛نظری عقل کے ذریعه انسان ، طبیعت، ریاضیات Mathmetics، منطق و الٰهیات ، خلاصه یه که حکمت نظری سے مربوط Connectedوجود و عدم ، تھا یا نه تھا ، هے یا نهیں هے ، جیسے مفاهیم کو سمجھتے اور درک کرتی هے ۔ دوسرے لفظوں میں: نظری عقل کاکام واقعیتوں کو درک کرنا اور انھیں پهچان کر ان کے بارے میں فیصله کرنا هے
2۔ عملی عقل: اس کا تمام ، عزم و اراده ، ایمان اور فیصله کی جگه هے یعنی وه جگه Positionجهاں سے عمل شروع هوتا هے۔عملی عقل اس قوت و طاقت Powerکو کهتے هیں جو انسان کے اعمال وکردار کو کنٹرول Controleکرتی هے ۔ یا اس کا کام (چیزوں کی ضرورت اور عدم ضرورت) کو درک کرنا هے درحقیقت عملی عقل زندگی کے علوم کی بنیادBase هے اور عملی عقل کی قضاوت کا مقام یه هے که اس کام کو کروں یا نه کروں ؟ [۲۳]کرجی ، علی ، اصطلاحات فلسفی و تفاوت آنها با یکدیگر ، صص۱۷۱،۱۷۲-عملی عقل امام جعفر صادق (علیه السلام) کی زبان میں ؛ انسان کی عبودیت کا مرکز اور خداوند عالم سے جنت حاصل کرنے کی پونجی هے ((العقل ما عبد به الرّحمٰن و اکتسب به الجنان)۔[۲۴]
3۔ عام عقل:یعنی وه عقل جس کی تمام تر کوشش ظاهری زندگی کا تحفظ هے ، عوام الناس اس طرح کی عملی طاقت Practical Powerکو عقل کهتے هیں ۔[۲۵]
اسلام میں عقل کی اہمیت:
اسلام کے حیات آفریں مکتب میں عقل کا مقام بهت هی بلند وبرتر هے ، علامه طباطبائی تفسیر المیزان میں لکھتے هیں: انسان کے وجود میں سب سے زیاده شریف قوت عقل هے [۲۶]خداوند عالم نے قرآن مجید میں انسانوں کو اس خدادادی طاقت سے استفاده کرنے کا حکم Orderتین سو سے زیاده مرتبه دیا هے [۲۷]علامه کے مطابق تفکر و تعقل کا مرتبه اتنا بلند هے که خداوند عالم نے ایک مرتبه بھی اپنے بندوں کو نه سمجھنے یا اندھی تقلید کا حکم نهیں دیا هے [۲۸]،عقلی و نقلی دلیلوں کی بنیاد پر اس وسیع مخلوقات Creaturesکے درمیان عقل کی کارکردگی کا میدان عالم طبیعت کے واقعات و حوادث ،شرعی احکام اور اجمالی طور پر خدا کی شناخت و معرفت هے۔
یعنی انسان کی عقل میں خدا کی ذات کی شناخت کرنے کی طاقت نهیں هے اس لیئے که هر مخلوق چون که مخلوق و حادث هے لهذا لا محدود Unlimitedو بے نهایت نهیں هو سکتی اور انسان کی عقل چون که خدا کی پیدا کی هوئی مخلوق هے لهذا محدود هے اور محدود، لامحدود و بے نهایت (خدا) کو نهیں پهچان سکتی ،انسان کی عقل کائنات عالم ، اس میں رونما هونے والے حادثات اور اس کے قوانین Rules and Regulationsکو پهچان سکتی هے اور اس کے بارے میں فیصله بھی کر سکتی هے ۔احکام کی شناخت کے لیئے بھی علماء عقل پر اعتماد کرتے هیں ، علم فقه میں عقل قرآن و سنت کے همراه احکام کی شناخت کی دلیل کا عنوان قرار پاتی هے ؛ علم اصول میں بھی یه ثابت هے که حسن و قبح عقلی کے باب میں شارع مقدس کے اوامر و نواهی کی اطاعت کا واجب هونا عقل کے حکم سے هے [۲۹]علامه طباطبائی ، فرانسوی معترض ((هانری کاربن)) کے اس سوال که آپ اور کتاب و سنت کے درمیان اختلاف کی صورت میں کیا کرتے هیں؟ کے جواب میں فرماتے هیں ؟ جب قرآن نے صراحۃً عقل کے نظریه کی تصدیق کر دی هے تو ان دونوں کے درمیان اختلاف Differenceکا سوال هی پیدا نهیں هوتا [۳۰]۔اسلام کی نظر میں بعثت انبیاء کا فلسفہ بھی یہ ہے کہ وہ انسان کی خوابیدہ عقل کو بیدار کریں چنانچہ امام علی فرماتے ہیں ۔ ۔ ۔ و بشیروا لهم دفائن العقول۔ ۔ ۔ [۳۱]علم کے خزانه ان لوگوں کے لیئے کھول دیں ۔حضرت علی (علیه السلام) اس کلام میں انبیاء (علیهم السلام) کی بعثت کا فلسفه بیان کرتے هیں که خداوند نے نبیوں (علیهم السلام) کو لوگوں کی طرف بھیجا تا که وه ان کی سوئی هوئی عقل کو بیدار کریں۔
شریعت اور عقل میں مطابقت:
انسان کی عقل و فطرت اس خزانه کی مانند هے جس میں تمام واقعیتیں اور حقائق موجود هیں اسی لیئے پیغمبر جو کچھ فرماتے هیں وه عقل و منطق کے مطابق هوتا هے، اصول فقه میں ایک اصطلاح ((قاعده ملازمه)) هے جس کا کهنا هے که کل ما حکم به العقل حکم به الشرع [۳۲]
(جس چیز کا عقل حکم کرتی شریعت بھی اس کا حکم کرتی هے اور اس کے برعکس بھی صحیح هے یعنی) (کل ما حکم بہ الشرع حکم به العقل) جن چیزوں کا شریعت حکم دیتی هے ان کا عقل بھی حکم دیتی هے اسی وجه سے شرعی احکام کی بنیادوں میں سے ایک عقل هے ۔لهذا شارع مقدس اور انبیاء (علیهم السلام) کا حکم عقل کے خلاف نهیں هے۔ وه جو بھی کهتے هیں وه عقلی بات هوتی هے مگر شیطانی وسوسوں کی وجه سے انسان ان سے غافل هو جاتا هے، انبیاء (علیهم السلام) آئے تا که وه انسانوں کو عقل کے خزانوں کی یاد دهانی Remind کرائیں۔
نتیجه عقل و شریعت آپس میں هم آهنگ اور ایک دوسرے کے ساتھ هیں،شریعتمیں کوئی ایسا حکم جو حقیقت میں عقل کے خلاف هو موجود نهیں هے اسی لیئے انسان هر چیز کو قبول کرنے کے لیئے دلیل تلاش Searchکرتا هے جو اسے مطمئن کر سکے اور جب بھی کوئی حقیقت دلیل کے ذریعه واضح و روشن هوجاتی هے اسے وه قبول Acceptکرلیتا هے ۔ اسی حد تک؛ یعنی کائنات اور اس کے حوادث ، دنیا پر حاکم قوانین اور شرعی احکام عقل کے قبضه قدرت میں هیں تا که ان کے بارے میں غور کرکے فیصله Decide کرے، لیکن خدا کی معرفت اور اس کی حقیقت سے آشنائی کے سلسله میں عقل کی کارکردگی محدود Limited هے اور وه اس کی کام حقه شناخت سے قاصر هے۔
عقل حجت باطنی:
عقل، انسانوں کی باطنی حجت هے، جو انهیں کمال کی راه میں رهبری کرتی هے اور شریعت (دین) ظاهری حجت هے جو انهیں آلود گیوں سے نجات دلاکر انسانی کمال وسعادت کی طرف راهنمائی Guide کرتی هے۔ اس بنا پر ممکن نهیں هے که حجت ظاهری وباطنی کے در میان کسی قسم کا ٹکراٶ هو۔ عقل ونقل ایک دوسرے کے پیچهے یعنی طول میں قرار پائے هیں۔ عقل انسانوں کی باطنی حجت هے جوانهیں کمال کی راه میں رهبری کرتی هے، اور شریعت ظاهری حجت هے جو انسانوں کو آلودگیوں کے بھنور سے نجات دے کر انهیں انسانی کمال وسعادت کے ساحل کی طرف هدایت کرتی هے- جیسا که حضرت امام موسی کاظم علیه السلام فر ماتے هیں: "خدا وند متعال نے لوگوں کے لئے دو حجتیں قراردی هیں : ظاهری حجت اور باطنی حجت، لیکن ظاهری حجت خدا کے انبیاء اور ائمه اطهار علیهم السلام هیں اور باطنی حجت انسانوں کی عقل هے۔”[۳۳]
حضرت امام موسی کاظم علیه السلام کی روایت کے مطابق خدائے واحد تک پهنچنے کے دوراهنما هیں : ایک ظاهری راهنما اور ایک باطنی راهنما۔ لیکن یه بات قابل ذکر هے که یه ظاهر و باطن کی دو حجتیں دو مستقل اور ایک دوسرے سے بے نیاز راستے نهیں هیں انسان اس وقت مقصد تک پهنچ سکتا هے جب ان دو راهنماؤں کےدرمیان انتهائی هم آهنگی هو-
عقل کی حقیقت کیا ہے؟
عقل، حقیقت میں وہی انسان کیخود آگاہی ہے جو ادراک کے ہر مرتبہ پر عمل Actکرتی ہے اور یہ خود آگاہی صرف انسان سے مخصوصSpecific ہے اور حیوانات شعور رکھنے کے باوجود "میں” نام کے عنصر اور خود آگاہی سے عاری ہیں- بہ الفاظ دیگر عقل، وہ آگاہی کا نور ہے جو ادراک کے تمام ارکان ( حواس، تصورات، فکر حافظہ وغیرہ) پر آگاہی اور احاطہ رکھتا ہے اور سب کو روشنی بخشتا ہے۔
انسان کے اپنے وجود کی نسبت اور حقیقت میں اپنے آپ پر شاہد ہونے کی یہ آگاہی انسان سے مخصوص تمام فہم و ادراک کا مرکز Centre ہے۔ انسان اپنے بارے میں آگاہ ہو وہ اپنی اس آگاہی کے اثر میں ہر عمل سے متعلق آگاہ و شاہد کے عنوان سے خود بخود امتیاز و فیصلہ Decision کرنے کی قدرت پیدا کرتا ہے اور صرف اس وقت غفلت سے دوچار ہوتا ہے جب اس میں یہ توانائی انرجی موجود نہ ہو، پس جس طرح عقل عدم غفلت کی صورت میں کمیت و عددی امور سے روبرو ہونے کے وقت محاسبہ کی طاقت رکھتی ہے، اس طرح معنوی اور بلند تر امور کے بارے میں بھی ایک متعالی ادراک رکھتی ہے اور اس کے مختلف درجات تدریجا شکوفا ہوتے ہیں۔
اس بیان کے پیش نظر انسان کی عقل اور اس کا انسان میں ہر مرتبہ پر موجود ہونا ایک فطری Natural بدیہی اور ذاتی Personal امر ہے اور اس کو ثابت کرنے کے لئے اس سے استفادہ کرنے کے سلسلہ میں پیچیدہ Comlicated نظری مباحث کی ضرورت ہے۔ منطقی عقل کو ثابت کرنے کے لئے انسان کی کوششوں کے بے فائدہ ھونے کی وجہ Reason یہ ہے کہ مسئلہ کے فرض کی بنا پر ” منطقی ثبوت” صرف عقل کی ایک طاقت اور وسیلہ ہے، لہذا عقل کو اپنا ثبوت پیش کرنے کے لئے کسی وسیلہ کی ضرورت نہیں ہے بلکہ عقل ذاتی طور پر خود آگاہی ہے اور ہر چیز عقل کی آگاہی کے نور سے آشکار و ثابت ھوتی ہے۔
عقل کی موجودگی کو ادراک کرنے کے لئے ضروری Important شرط اپنے آپ سے عدم غفلت ہے اور عقل سے دور ھونے کی وجہ اپنے آپ کو نہ پہچاننا اور اپنے بارے میں بیگانگی اور ذہن کا بعض اندھی خواہشات کا غلام بننا ہے۔ قرآن مجید کے مطابق بھی انسان عقل رکھتے ہیں، لیکن ان کے دل کے اندھے پن کی وجہ سے اس سے استفادہ Benefit نہیں کر ہیں : ” کیا ان لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی ہے کہ ان کے پاس ایسے دل ھوتے جو سمجھ سکتے اور ایسے کان ھوتے جو سن سکتے اس لئے در حقیقت آنکھیں اندھی نہیں ھوتی ہیں، بلکہ وہ دل اندھے ھوتے ہیں جو سینوں کے اندر پائے جاتے ہیں [۳۴] ایک دوسری آیہ شریفہ میں ارشاد ھوتا ہے : ” اور یقینا ہم نے انسان و جنات کی ایک کثیر تعداد کو گویا جہنم کے لئے پیدا کیا ہے کہ ان کے پاس دل ہیں مگر سمجھتے نہیں ہیں اور آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں ہیں اور کان ہیں مگر سنتے نہیں ہیں یہ چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں اور یہی لوگ اصل میں غافل ہیں۔”[۳۵]
عقل کی حقیقت کے بارے میں چند روایات:
1. امام صادق (ع) سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟ حضرت (ع) نے جواب میں فرمایا : ” عقل وہ چیز ہے، جس سے خداوند متعال کی پرستش کی جاتی ہے اور بہشت ملتی ہے۔ "راوی کہتا ہے کہ میں نے کہا: معاویہ کے پاس جو (عقل کے عنوان سے) چیز تھی وہ کیا تھی؟ جواب میں فرمایا وہ فریب کاری ہے اور شیطنت ہے، وہ بظاہر عقل لگتی ہے، لیکن وہ عقل نہیں ہے۔”[۳۶]
2. جب خداوند متعال نے عقل کو پیدا کیا۔ — ارشاد فرمایا: "میری عزت و جلال کی قسم تجھ سے محبوب تر کسی مخلوق کو میں نے پیدا نہیں کیا ہے اور تجھے میں نے صرف ان افراد کو مکمل طور پر Completely عطا کیا، جنھیں میں دوست رکھتا ھوں۔”[۳۷]
3. جبرئیل حضرت آدم (ع) پر نازل ھوئے اور کہا : اے آدم (ع) مجھے ماموریت ملی ہے کہ تین چیزوں میں سے ایک کو منتخب Choose کرنے کا آپ کو اختیار دیدوں اور باقی دو چیزوں کو آپ چھوڑ دیں۔ حضرت آدم (ع) نے سوال کیا : وہ تین چیزیں کیا ہیں؟ جبرئیل نے کہا : عقل حیاء اور دین – آدم (ع) نے کہا کہ میں عقل کو منتخب کرتا ھوں۔ جبرئیل نے حیاء و دین سے کہا کہ تم دونوں عقل کو چھوڑ کر واپس جانا۔ ان دونوں نے جواب میں کہا : اے جبرئیل ! ہم مامور ہیں کہ جہاں پر عقل ھو وہیں پر ہم بھی رہیں”-[۳۸]
4. پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا: خداوند متعال نے اپنے بندوں کو عقل سے بہتر کوئی چیز نہیں بخشی ہے، کیونکہ عاقل کا سونا جاہل کی شب بیداری سے بہتر ہے اور عاقل کا گھر میں رہنا جاہل کے ( حج و جہاد کی طرف) سفر Travel کرنے سے بہتر ہے۔ اور خداوند متعال نے پیغمبر و رسول کو عقل کو مکمل Complete کرنے کے علاوہ کسی چیز کے لئے مبعوث نہیں کیا ہے ۔ ( جب تک نہ عقل کو مکمل کرے تب تک مبعوث نہیں کرتا ہے) اس (پیغمبر و رسول) کی عقل تمام امت کی عقلوں سے برتر ہے۔ اور جو کچھ پیغمبر رکھتا ہے وہ مجتہدین کے اجتہاد سے بالاتر ہے اور جب تک ایک بندہ واجبات کو اپنی عقل سے حاصل نہیں کرتا اسے انجام نہیں دیتا ہے۔ تمام عابد اپنی عبادت کی فضیلت میں عاقل تک نہیں پہنچتے۔ عقلا وہی صاحبان عقل ہیں کہ ان کے بارے میں فرمایا گیا ہے : ” صاحبان عقل ہی نصیحت قبول کرتے ہیں۔”[۳۹]
5. امام صادق (ع) نے فرمایا ہے: ” خداوند عز وجل نے عقل کو عرش کے بائیں جانب اپنے نور یہ روحانیوں سے پہلے پیدا کی گئی مخلوق ہے”-[۴۰]
6. ” ایمان و کفر کے درمیان عقل کی کمی کے علاوہ کوئی فاصلہ نہیں ہے۔”[۴۱]
مراتب عقل:
یہاں پر ہم عقل کے مراتب کے بارے میں دینی معرفت کے نظریہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
عقل اس کے عام معنی میں وہی انسان کی خود آگاہی ہے جو انسان کے وجود کا نور ہے اس بنا پر عقل کے مراتب بھی انسان کی اپنے آپ کے بارے میں خود آگاہی کے مراتب ہوں گے کہ یہ خود آگاہی تمام حسی، خیالی، فکری اور حافظہ وغیرہ مشتمل ہے اور ان تمام ادراکات کو انسانی فہم و ادراک میں شامل کرلی ہے۔ یہ جو ہم نے کہا کہ عقل ان ادراکات کی آگاہی ہے نہ کہ بذات خود ادراکات اس کی وجہ یہ ہے کہ ممکن ہے قرآن مجید کی تعریف کے مطابق انسان آنکھیں ( ادراک حسی) رکھتا ہو لیکن نہ دیکھتا ہو اور محاسبہ کی طاقت Power رکھتا ہو لیکن تعقل نہ کرتا ہو، حافظہ رکھتا ہو لیکن عبرت حاصل نہیں کرتا ہو ۔ لیکن عاقل انسان مذکورہ تمام ادراکات کے بارے میں زندہ فہم رکھتا ہے اور یہی فہم انسان کے اندر عقل ھونے کا ثبوت Prove ہے۔
البتہ دنیوی امور کے لئے محاسبہ اور قیاس کی قدرت عقل کے وسائل میں سے ایک ہے جو اپنی جگہ پر بخوبی عمل کرسکتی ہے، یعنی یہ قدرت انسان کے تمام وجود میں انسان کے نفس امارہ کے فائدے میں استفادہ کرتی ہے۔ ان حالات میں محاسبہ کی قدرت جو عقل کے مشابہ ہے، نہ کہ خود عقل انسان کے وجود کو اپنی سطح پر اسیر کر کے اسے کمال تک پہنچنے میں رکاوٹ بنتی ہے اور محاسبات کی کمیت کے علاوہ سب چیزوں کا انکار Deny کرتی ہے۔ اس یاد دہانی کے بعد، عقل کے مراتب کے بارے میں قابل بیان ہے کہ : عقل کا پست ترین درجہ وہی انسان کی اپنے حواس کے بارے میں آگاہی ہے کہ انسان اپنی عقل سے استفادہ کر کے اپنے حواس سے حاصل ھونے والے پیغام کے معنی کو سمجھتا ہے اور بلند مرتبہ میں عقل، فکر کی آگاہی ، حافظہ علم، عبرت اور حکمت پر مشتمل ھوتی ہے۔ اس کے بعد ان مراتب میں سے ایک برتر مرتبہ پر عقل نمایاں Prominant ھوتی ہے۔ جو وحی اور شہودی ادراکات ( اس کے کل معنی میں) کے مراتب کے سلسلہ پر مشتمل ہوتی ہے اور بالاخر اس کے الہی اور توحید عرفانی کا مرتبہ بالاترین درجہ کے عنوان سے عقل کی شکوفائی کی حس سے گزر کر اشکار ہوتا ہے۔
اس بنا پر ہم دیکھتے ہیں کہ قران مجید اور روایات کی اصطلاح میں عقل کو انسان کے نجات بخش عنصر کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے اور اس کا ایک عظیم دائرہ ہے۔ اسی لحاظ سے قران مجید اور معصومین (ع)کی زبان میں عقل کی مذمت اور سرزنش کرنے کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ صرف قیاس کے بارے میں روایات میں مذمت وارد ہوئی ہے کیونکہ قیاس عقل کے معنی میں نہیں ہیں، بلکہ عقل کے وسائل کا ایک سطحی حصہ ہے۔
(۳)
قال علی علیہ السلام:لسان العاقل وراء قلبہ،و قلب الاحمق وراء لسانہ۔ [۴۲] نہج البلاغہ حکمت ۴۰
عقلمند کی زبان اس کے دل کے پیچھے رہتی ہے اور احمق کا دل اس کی زبان کے پیچھے رہتا ہے۔
امام علی علیہ السلام کے مندرجہ بالا فرمان میں عقل مند اور بیوقوف کی نشانی بتائی گئی ہے اور ساتھ ہی ایک طرح سے گفتگو کا انداز اور طریقہ بھی گیا ہے۔گویا اس فرمان سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گفتگو اور انسانی عقل میں گہرا تعلق Relation موجود ہے جس کی امیرالمومنین اشارہ فرما رہے ہیں۔
عقل مند وہ ہے جو گفتگو کے قوانين کا خيال رکھے اور اس قوت کو بغير ضرورت Without Need کے استعمال نہ کرے جائز کاموں ميں بھي زيادہ گفتگو کي وجہ سے دل ميں سختي آ جاتي ہے ليکن باطل اور خلاف کام جو خواہ معمولي نوعيت کے بھي ہوں ان ميں زيادہ گفتگو کرنے سے دل سنگدل ہو جاتا ہے – زيادہ گفتگو کے سامنے اگر ہم کم گفتگو کريں تو يہ ہماري دنيا اور آخرت کي خير کا باعث بنتي ہے – لفظ عقل اصل ميں عقال سے نکلا Drivedہے اور يہ وہ رسي ہے جس سے چيزوں کو باندھ ديا جاتا ہے اس معني کو مدنظر رکھتے ہوۓ ہم کہہ سکتے ہيں کہ عقل وہي رسي ہے جو نفس کو کنٹرول کرتي ہے اور اس ميں وہ طاقتPower ہوتي ہے جو تمام اعضا اور اطراف کو قابو Controlکر سکتي ہے – جب زبان عقل کے قابو ميں ہوتي ہے تو قدرتي طور پر لغو اور بري باتوں سے بچي رہتي ہے اور انسان مفيد کاموں کے علاوہ اس کا استعمال Use نہيں کرتا ہے۔
دوسري طرف جب عقل کمزور ہو جاتي ہے تو زبان خود کو عقل کي حکمراني سے آزاد Free تصور کرنے لگتي ہے اور يوں ہر بات انسان کي زبان پر آنے لگتي ہے جس کا اس سے کوئي تعلق بھي نہيں ہوتا ہے اور اس سے خوامخواہ نقصان اٹھاتا ہے جوں جوں انسان کا عقل و شعور زيادہ ہوتا جاتا ہے وہ کمال کي طرف بڑھتا جاتا ہے اور يوں ويسے ہي وہ کم بولتا ہے اور زيادہ سوچتا ہے۔
جو انسان زيادہ بولتے ہيں اور اپني زبان قابو ميں نہيں رکھتے ہيں ان کي عقل کم اور سوچنے کي صلاحيت کم ہوتي ہے – ايسے لوگ بغير سوچے زبان سے ہر لفظ کو ادا کر ديتے ہيں ليکن اس کے برعکس عقلمند افراد جب تک موضوع Topicکے متعلق ہر طرح کي آگاہي Information حاصل نہ کر ليں اور اس کے اچھے اور برے پہلو کے بارے ميں جان نہ ليں زبان سے کوئي بھي لفظ Word ادا نہيں کرتے ہيں۔
اسي وجہ سے عاقل انسان کم بولتا ہے کيونکہ وہ اپنے وقت کو ان الفاط کے بارے ميں سوچنے پر صرف کرتا ہے جو وہ ادا کرنا چاہتا ہے ،عقل مند شخص ہر طرح سے مطمئن ہونے کے بعد الفاظ ادا کرتا ہے ،بےوقوف انسان بغير سوچے بولنا شروع Start کر ديتا ہے جس سے دوسرے اشخاص کو ناراحتي کا احساس ہوتا ہے اور شاید سی لئے امیر المومنین عقل کے کمال کو کم گوئی سے جوڑتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ إِذَا تَمَّ الْعَقْلُ نَقَصَ الْكَلاَمُ جب انسان کي عقل کامل ہوتي ہے تو اس کي گفتگو کم ہو جاتي ہےامام موسیٰ کاظم علیہالسلام نے فرمایا :جو شخص تین چیزوں کو تین چیزوں پر مسلط کرے گا وہ اپنی عقل کی تباہی کے لئے اپنی خواہشات کی مدد Help کرے گا۔
جو لمبی چوڑی آرزوؤں Wishes سےاپنیفکرکےنورکوتاریکیمیں بدل دے۔
جو فضول باتوں سے مختلف قسم Different type کی حکمت کی باتوں کو محو کردے۔
اپنی شہوات کے ساتھ عبرت کے نور کو بجھا دے۔ [۴۳]
یہاں ہم اپنی گفتگو کو سید رضی کے اس کلام کے ساتھ ختم کر رہے ہیں کہ جو انہوں نے اس کلمہ قصار کے ذیل میں نقل کی ہے سید رضی فرماتے ہیں کہ یہ بڑی عجیب و غریب اور لطیف حکمت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ عقلمند انسان غورو فکر کرنے کے بعد بولتا ہے اور احمق انسان بلا سوچے سمجھے کہہ ڈالتا ہے گویا کہ عاقل کی زبان دل کی تابع ہے اور احمق کا دل اسکی زبان کا پابند ہے۔[۴۴]
تذکر: اس مقالہ میں نہج البلاغہ، اردو ترجمہ علامہ جوادی، غرر الحکم، ترجمہ، نثار زین پوری، انتشارات انصاریان سے استفادہ کیا گیا، اس کے علاوہ تکراری کتابوں کے حوالہ جات میں اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر کتاب کا صرف ایک مرتبہ کامل حوالہ نقل کیا گیا ہے۔ شکریہ Thanks
منابع و مصادر:
قرآن کریم
[۱] (نہج البلاغہ حکمت ۴۷، اردو ترجمہ،علامہ ذیشان حیدر جوادی،ناشر انصاریان،طبع دوم،سال ۲۰۰۶ م،قم ،ایران)
[۲] جامع السادات ،ج۱،ص ۲۶۵، اور معراج السعادہ،ص ۱۶۴ بحوالہ راھبردی مسائل زنان در نہج البلاغۃ،تالیف، سیمیندخت بہزاد پور،ناشر ،شورای فرحنگی اجتماعی زنان،س ۱۳۸۴
[۳] المیزان،ج۴،ص ۲۸۰،(یہ مطلب کتاب آسیب ھا و غیرتمندی،ص۱۳ سے نقل کیا گیا ہے)
[۴]وسائل الشیعہ ج ۴ صفحہ ۱۰۷)
[۵] صدوق،ابن بابویہ،من لا یحضرہ الفقیہ ج۳ ص۴۴۴، انتشارات جامعہ مدرسین ،قم،چاپ دوم،۱۴۰۴
[۶]ہج البلاغہ خطبہ ۳۷)
[۷]امام علی و نظارت مردمی محمد دشتی ۱۲۸
[۸] اکبری،محمود،آسیب ھا و غیرتمندی،ص۱۴)انتشارات ادب،قم،۱۳۷۸
[۹] آیت اللہ مکارم شیرازی،انتشارات نسل جوان، قم،ایران پیاام قرآن،چاپ دوم، ج۳ ص۴۳۸)
[۱۰] حسین شیخ الاسلامی ،ترجمہ نثار احمد زین پوری، ناشر، انصاریان،قم ، ایران، طبع اول ۲۰۰۵ م ،غرر الحکم و درر اکلم،ج۲ ص ۳۰۹،
[۱۱] حر عاملی، محمد بن حسن،وسایل الشیعہ ،ج ۱۴،ص۱۰۹،موسسہ آل البیت،قم،چاپ سوم،۱۴۱۶
[۱۲] غرر االحکم و درر اکلم،ج۲،ص۳۱۹(ایضا)
[۱۳] ینابیع الحکمۃ،ج۴،ص۳۰۹
[۱۴] وسایل الشیعہ،ج۱۴،ص۱۷۴،(ایضا)
[۱۵] ایضا
[۱۶]نہج البلاغہ،خط ۳۱، (ص ،۵۴۱، ترجمہ جوادی)
[۱۷] وسایل الشیعہ ،ج۱۴،ص۱۷۶
[۱۸] ایضا،ص ۱۴۵،ج۱۴،
[۱۹] نہج البلاغہ،حکمت ۳۰۵
[۲۰] نہج البلاغہ،حکمت ۳۸،
[۲۱] معین ، محمد، فرهنگ معین،(ایک جلدی) لفظ عقل،
[۲۲]سجادی ،سید جعفر ، فرهنگ علوم فلسفی و کلامی ، ماده عقل
[۲۳] کلینی اصول کافی ، ج ۱ ،ص ۱۱
[۲۴] کلینی اصول کافی ، ج ۱ ، ص ۱۱ ، حدیث ۳
[۲۵]جوادی آملی ، عبد الله ،فطرت در قرآن ، ج ۱۲ ، ص۲۹،ناشر اسراء،قم
[۲۶]طباطبائی ، محمد حسین، المیزان ، ج ۳ ، ص۵۷
[۲۷]طباطبائی ، محمد حسین، المیزان ، ج ،ص۲۵۵
[۲۸]تفیسی ، شادی ، عقل گرائی در تفاسیر قرن چهاردهم ، صص۱۹۴۔۱۹۵
[۲۹]ملکی اصفهانی ، مجتبیٰ ، فرهنگ اصطلاحات اصول ، ج ۲ ، ص۲۲۹
[۳۰] کدیور ، محسن ، دفتر عقل ، ص۱۱۵
[۳۱] هج البلاغه ، خطبه نمبر۱
[۳۲]مظفر ، محمد رضا ، اصول الفقه ، ج ۱ ، ص۲۱۷
[۳۳] کلینی ، اصول کافی ، ج ۱ ، صص۳۳۔۳۴
[۳۳] کلینی ، اصول کافی ، ج ۱ ، صص۳۳۔۳۴
[۳۴] لحج،۴۶
[۳۵] الاعراف،۱۷۹
[۳۶] کلینی،الکافی،ج۱،ص۱۲،دارالکتبالاسلامیة،تهران،۱۳۶۵ش
[۳۷] ایضآ،ص۱۰
[۳۸] ایضا ،ص ۱۰
[۳۹] ایضا۔ص۱۳
[۴۰] ایضا،ص۲۰
[۴۱] ایضا۔ص۲۸
[۴۲] نہج البلاغہ حکمت ۴۰
[۴۳] مجلسی،محمد باقر،بحار الانوار، جلد،۱ صفحہ،۱۳۷،موسسہ الاء،بیروت،۱۴۰۴
[۴۴]نہج البلاغہ،اردو ترجمہ علامہ جوادی،ص ۶۴۳