حرف اوّل: علامہ مفتی جعفر حسین قدس سرہ
نہج البلاغہ علوم و معارف کا وہ گراں بہا سرمایہ ہے جس کی اہمیت و عظمت ہر دور میں مسلّم رہی ہے اور ہر عہد کے علماء و ادباء نے اس کی بلند پائگی کا اعتراف کیا ہے۔ یہ صرف ایک ادبی شاہکار ہی نہیں ہے، بلکہ اسلامی تعلیمات کا الہامی صحیفہ، حکمت و اخلاق کا سرچشمہ اور معارفِ ایمان و حقائق تاریخ کا ایک انمول خزانہ ہے، جس کے گوہرِ آبدار علم و ادب کے دامن کو زر نگار بنائے ہوئے ہیں اور اپنی چمک دمک سے جوہر شناسوں کو محوِ حیرت کئے ہوئے ہیں۔ افصح العرب کے آغوش میں پلنے والے اور آب وحی میں دُھلی ہوئی زبان چوس کرپروان چڑھنے والے نے بلاغت کلام کے وہ جوہر دکھائے کہ ہر سمت سے ’’فَوْقَ کَلَامِ الْمَخْلُوْقِ وَ تَحْتَ کَلَامِ الْخَالِقِ‘‘ کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔
یہ نثر اس دور کی نثر ہے جب عربوں کی طلاقت و جوش گفتاری صرف نظم تک محدود تھی، ریگزار عرب پر بستر لگا کے آزادی کی فضا میں پر بہار زندگی گزارنے والے فرزندان صحرا شعر و نظم اور تخییل و محاکات کے لازوال نقوش تو چھوڑ گئے، مگر جہاں تک نثر کا تعلق ہے، ان کے جیب و دامن میں کوئی ایسا گوہر شاہوار نہ تھا جسے بطورِ تفاخُر پیش کرتے اور اہل عالم کو اپنے مقابلہ میں للکارتے۔ دامن اسلام میں اگرچہ قرآن کریم ایسا عربی نثر کا زندہ جاوید معجزہ موجود ہے مگر وہ اپنے قائل کی عظمت و جلالت اور اعجازی فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے انسانی کلام کے مقابلہ میں نہیں لایا جاسکتا اور پیغمبر ﷺ کے اقوال و ارشادات ہیں تو وہ اگرچہ معنوی لحاظ سے وسیع اور ہمہ گیر ہیں، مگر لفظی اعتبار سے اختصار بداماں۔
چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ کا ارشاد ’’اُوْتِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ‘‘ اس کا شاہد ہےکہ آپ کم سے کم لفظوں میں زیادہ سے زیادہ مطالب سمیٹ لیتے تھے اسی لیے آپ کے خطب و مکاتیب مختصر ہوتے تھے۔ رہی خلفاء كي نثر تو اس ميں فطری حسنِ ادا اور طبعی سادگی کے بجائے بناوٹ اور تصنّع کا رنگ جھلکتا ہے اور تاریخ شاہد ہے کہ انہیں مختصر سے مختصر تقریر کیلئے بھی خصوصی تیاری کی ضرورت ہوتی تھی اور اگر کہیں بغیر تیاری کے کھڑے ہو گئے تو دہن میں قفل پڑ گئے، زبان لڑکھڑانے لگی اور منہ سے ایک لفظ نہ نکال سکے۔ اگرچہ ملکی فتوحات کے سلسلہ میں اُن کے ’’کار ہائے نمایاں‘‘ نظر آتے ہیں، مگر کسی علمی و ثقافتی مرکز کی سرپرستی یا کسی علمی تحریک میں گام فرسائی کہیں نام کو نظر نہیں آتی۔
یہ بابِ مدینۃ العلم ہی کی ذات تھی جس نے علم و حکمت کے بند دروازے کھولے، نطق و فصاحت کے پرچم لہرائے اور علمی ذوق کو پھر سے زندہ کیا، باوجودیکہ آپ کا دور سکون و اطمینان سے یکسر خالی تھا اور ہوسِ اقتدار کی فتنہ سامانیوں نے اسے اپنی جولانگاہ بنا رکھا تھا اور شورش پسندوں نےخونِ عثمان کو ہوا دے کر آپؑ کو لڑائیوں میں الجھائے رکھنا ہی اپنے مقاصد کے لیے ضروری سمجھ لیاتھا،مگر ان رات دن کی لڑائیوں اور چپقلشوں کے باوجود آپؑ نشر علوم و معارف کے کسی موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ کبھی تلواروں کی جھنکار اور خون کی بارش میں علم و حکمت کے رموز بتائے اور کبھی ذہنی الجھاؤ اور افکار کے ہجوم میں ارشاد و ہدایت کے فرائض انجام دیئے۔ چنانچہ اس مجموعہ کے خطب و مکاتیب میں دو چار خطبوں اور ایک آدھ خط کے علاوہ تمام تحریریں اسی دور کی تخلیق ہیں کہ جب آپؑ ظاہری خلافت پر ایک دن بھی اطمینان و دلجمعی سے نہ بیٹھ سکے تھے۔ یہ بلاغت کے رگ و پے میں سرایت کر جانے کا نتیجہ ہے کہ اس انتشار و پراگندگی خاطر کے باوجود نہ کلام میں انتشار و برہمی پیدا ہوتی ہے، نہ عبارت کے تسلسل و ہم آہنگی میں فرق آنے پاتا ہے اور ہر موقع پر اسلوبِ بیان کی یک رنگی اپنے خصوصی امتیازات کے ساتھ برقرار رہتی ہے۔
امیر المومنین علیہ السلام نے علمی حقائق کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ علم ادب کی نشو و نما میں بھی پورا حصہ لیا اور عربی نثر کو نہ صرف حد کمال تک پہنچایا بلکہ فلسفیانہ نظر و فکر کو ادبی لطافتوں میں سمو کر ایک نئے طرز تحریر کی داغ بیل ڈالی جس کی اس زمانہ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ عرب تو خیر اس وقت میں منطقیانہ اندازِ استدلال سے روشناس ہی نہ تھے کہ اس دور میں اس کی مثال ڈھونڈی جائے۔ آج بھی جب کہ نثر ترقی کے مدارج طے کر چکی ہے اور ادبی و فنی ارتقاء اپنے نقطۂ کمال کو پہنچ چکا ہے اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ اگر کسی کلام میں معانی و بیان کی مناسبتیں اور تشبیہ و استعارہ کی لطافتیں پائی جاتی ہیں تو وہ حکمت و اخلاق کی تعلیمات سے تہی داماں ہے اور اگر کسی میں حکمت و اخلاق کے جوہر بھرے ہوئے ہیں تو طرزِ ادا کی شگفتگی اور رنگینی غائب ہے۔ فلسفہ و حکمت کے حقائق اور الٰہیات کے دقیق مسائل کو اس طرح بیان کرنا کہ کلام کی بلاغت، بیان کی ندرت اور طرزِ ادا کی لطافت میں کہیں جھول نہ آئے، بہت دشوار ہے، کیونکہ ہر فن کا ایک خاص لب و لہجہ، خاص پیرایہ اور خاص طریقۂ بیان ہوتا ہے اور یہ مانی ہوئی بات ہے کہ علمی مطالب میں نہ بلیغانہ تعبیرات کی گنجائش ہوتی ہے اور نہ ان میں اعلیٰ معیار بلاغت کو باقی رکھا جا سکتا ہے، کیونکہ ٹھوس حقائق کی وادی اور ہے اور بلاغت کا پر بہار چمن اور ہے۔ چنانچہ ابن خلدون کو یہ کہنا پڑا کہ علماء و فقہاء کی تحریروں میں فصاحت و بلاغت کو ڈھونڈنا بیکار ہے، کیونکہ فقہی عبارتیں، کلام و جدل کی تحریریں اور علمی و فنی تعبیریں اسلوب بلاغت سے میل نہیں کھاتیں۔
اہل فن کے ذہنوں میں جو مخصوص تعبیرات محفوظ ہوتی ہیں وہ انہی کو دہرانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ وہ اگر اپنے بیان میں شعریت لانا بھی چاہیں گے تو ہر پھر کے وہی لفظیں، وہی تعبیریں ہوں گی جو ان کی زبانوں پر چڑھ کر منجھ چکی ہیں۔ چنانچہ ابن خلدون نے لکھا ہے کہ: ابو القاسم ابن رضوان نے ایک دفعہ ابو العباس ابن شعیب کے سامنے شاعر کا یہ شعر پڑھا:
لَمْ اَدْرِ حِیْنَ وَقَفْتُ بِالْاِطْلَالِمَا الْفَرْقُ بَیْنَ جَدِیْدِھَا وَ الْبَالِیْ
(’’میں جب دوست کے کھنڈروں کے پاس ٹھہرا تو نہ جان سکا کہ نئے اور پرانے کھنڈروں میں کیا فرق ہے‘‘)۔
تو ابو العباس نے فوراً کہا کہ: یہ کسی فقیہ کا شعر معلوم ہوتا ہے۔ اس نے کہا کہ: یہ مشہور فقیہ ابن النحوی کا شعر ہے، مگر آپ کو اس کا اندازہ کیسے ہوا؟ ابوالعباس نے کہا: اس میں لفظ ’’مَا الْفَرْقُ‘‘ ببانگ دہل پکار رہی ہے کہ میں کسی فقیہ کی زبان سے نکلی ہوں۔ بھلا اس لفظ کو بلاغت اور اسلوب کلام عرب سے کیا واسطہ اور فقہی زبان کو شعر و سخن کی زبان سے کیا لگاؤ؟!۔
لیکن امیر المومنین علیہ السلام کے کلام کی یہ نمایاں خصوصیت ہے کہ اس میں ادب کی سحر انگیزی اور علم و حکمت کی باریک نگاہی دونوں سمٹ کر جمع ہو گئی ہیں اور کسی پہلو میں بھی کمزوری کا شائبہ تک نہیں آنے پاتا۔ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام وہ پہلے مفکّرِ اسلام ہیں جنہوں نے خداوند عالم کی توحید اور اس کے صفات پر عقلی نقطۂ نظر سے بحث کی ہے اور اس سلسلہ میں جو خطبات ارشاد فرمائے ہیں وہ علم الٰہیات میں نقش اوّل بھی ہیں اور حرفِ آخر بھی۔ ان کی بلند نظری و معنی آفرینی کے سامنے حکماء و متکلمین کی ذہنی رسائیاں ٹھٹھک کر رہ جاتی ہیں اور نکتہ رس طبیعتوں کو عجز و نارسائی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ بلا شبہ جن لوگوں نے الٰہیاتی مسائل میں علم و دانش کے دریا بہائے ہیں ان کا سر چشمہ آپؑ ہی کے حکیمانہ ارشادات ہیں۔
یوں تو مخلوقات کی نیرنگیوں سے خالق کی صنعت آفرینیوں پر استدلال کیا ہی جاتا ہے، لیکن جس طرح امیر المومنین علیہ السلام دنیائے کائنات کی چھوٹی سے چھوٹی اور پست سے پست مخلوق میں نقّاشِ فطرت کی نقش آرائیوں کی تصویر کھینچ کر صانع کے کمالِ صنعت اور اس کی قدرت و حکمت پر دلیل قائم کرتے ہیں، وہ ندرتِ بیانی و اعجازِ کلامی میں اپنا جواب نہیں رکھتی۔ اس موقع پر صرف طاؤس کی خوش خرامی اور اس کے پر و بال کی رنگینی و رعنائی ہی نظروں کو جذب نہیں کرتی، بلکہ چمگادڑ، ٹڈی اور چیونٹی ایسی روندی ہوئی اور ٹھکرائی ہوئی مخلوق کا دامن بھی فطرت کی فیاضیوں سے چھلکتا ہوا نظر آتا ہے۔
ان خطبات و نگارشات میں ما بعد الطبیعاتی و نفسیاتی مسائل کے علاوہ اخلاقی، تمدنی، معاشرتی اصول، عدل و داد خواہی کے حدود، حرب و ضرب کے ضوابط اور عمال و محصلین زکوٰۃ کیلئے ہدایات بھی نمایاں حیثیت رکھتی ہیں اور ایک ایسا مکمل و جامع دستورِ حکومت بھی ان صفحات کی زینت ہے جس کی افادیت اس ترقی یافتہ دور میں بھی مسلم ہے کہ جب سیاست مدنی کے اصول اور جمہوری و غیر جمہوری حکومتوں کے آئین منضبط ہو چکے ہیں، یہ صرف نظریاتی چیز نہیں، بلکہ ایک عملی لائحہ ہے جس پر مسلمانانِ عالم بڑی آسانی سے عمل پیرا ہو کر دنیوی و اخروی ارتقاء کے اعلیٰ مدارج پر پہنچ سکتے ہیں۔
ان تحریروں میں اُن علمائے دنیا و فقہائے سوء کی فریب کاریوں سے بھی متنبہ کیا ہے کہ جنہیں علم سے تو کوئی لگاؤ ہوتا نہیں، مگر علماء کا روپ دھار کر مسند قضا پر بیٹھ جاتے ہیں اور علم و مشیخت کی دکان سجا کر دین فروشی کرتے ہیں۔ ’’کہ ازیں خوب تر تجارت نیست‘‘۔
بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ نہج البلاغہ کے تعلیمات دنیوی تعمیر و ترقی میں سد راہ ہیں۔ بیشک امیر المومنین علیہ السلام اس ترقی و فراوانیٔ دنیا کے خواہاں نہ تھے جو اسلام کی سادگی کو قیصری و کسروی رنگ میں رنگ دے، بلکہ اُن کا اصل مقصد ہمیشہ روحانی ترقی و اخلاقی بلندی رہا، لیکن اس کے ساتھ وہ رہبانیت کا درس نہ دیتے تھے۔ چنانچہ بصرہ میں جب عاصم بن زیاد کے متعلق اس کے بھائی نے آپؑ سے گلہ کیا کہ وہ گھر بار اور زن و فرزند کو چھوڑ کر گوشہ گزیں ہو گیا ہے تو حضرتؑ نے اُسے بلایا اور سختی سے ڈانٹا کہ وہ اس ڈھونگ کو جلد ختم کرے اور دنیا کی نعمتوں سے بہرہ مند ہو۔
نہج البلاغہ میں جہاں جہاں ترکِ دنیا کی تعلیم ہے اس سے اس قسم کی رہبانیت قطعاً مراد نہیں ہے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ انسان دنیوی سر و سامان پر بھروسا نہ کر بیٹھے کہ یہ صبح ہے تو شام نہیں، شام ہے تو صبح نہیں اور اس کی کامرانیوں اور دلفریبیوں میں کھو کر حیات بعد الممات سے غافل نہ ہو جائے۔ یہ مقصد نہیں کہ اس کی نعمتوں اور آسائشوں سے کلیۃً دستبردار ہو جائے۔ وہ انہیں حد اعتدال میں رہ کر استعمال کر سکتا ہے۔ البتہ دنیا کا بے اعتدالانہ استعمال جہاں اخلاقی تباہی کا پیش خیمہ اور روحانی زندگی کیلئے زہرِ ہلاہل بن جائے، کوئی اخلاقی رہنما اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔
نہج البلاغہ اخلاقی تعلیمات کا سر چشمہ ہے۔ اس کے مختصر جملے اور ضرب المثلیں، اخلاقی شائستگی، خود اعتمادی، حق گوئی اور حقیقت شناسی کا بہترین درس دیتی ہیں۔ اس کے ایک ایک فقرہ میں قرآن و حدیث کی روح اور اسلام کی صحیح تعلیم مضمر ہے۔ جن لوگوں نے اموی و عباسی دور کی نغمہ بار و حسن پاش رنگینیوں سے اسلامی اخلاق کا اندازہ لگایا ہے وہ اسلام کی پاکبازانہ تعلیم اور اس کے بلند معیارِ اخلاق سے بیگانہ ہیں اور اس وقت تک بیگانہ رہیں گے جب تک اس معلمِ اسلام کے حکمت آگین کلام کے آئینہ میں اسلام کے خد و خال کو پہچاننے اور اس کے بلند پایہ اسرار و نکات تک پہنچے کی کوشش نہ کریں گے۔
علامہ شریف رضیؒ کا دنیائے علم و ادب پر بڑا احسان ہے کہ وہ ان جواہر ریزوں کو بڑی کاہش و کاوش اور تحقیق و جستجو سے جمع کرنے کے بعد نہج البلاغہ کے نام سے چھوڑ گئے جس کے بلند پایہ حکم و معارف نے دنیا کی نظروں کو اپنی طرف موڑ لیا اور علامہ ممدوح کے دور سے لے کر اس وقت تک ہر مکتب خیال کے علماء و فضلاء نے اس کے مطالب و حقائق کو بقدر امکان واضح کرنے کیلئے اس کی شرحیں لکھیں جن کی تعداد سو سے کچھ ہی کم ہو گی، لیکن اردو دان طبقہ نہ اصل کتاب سے مستفید ہو سکتا ہے اور نہ شرحوں تک اس کی رسائی ہے۔ اس لئے ضرورت تھی کہ ضروری تشریحات کے ساتھ اس کا صحیح اور سلیس اردو میں ترجمہ ہو جائے۔ یوں تو اردو میں اس کے متعدد ترجمے ہو چکے ہیں مگر ’’نیرنگ فصاحت‘‘ کے علاوہ مکمل ترجمہ اس وقت تک منظرِ عام پر نہیں آیا۔لیکن اس کے متعلق افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس میں بیشتر مواقع پر مطلب کچھ کا کچھ ہو گیا ہے، مگر اردو میں نقش اوّل ہونے کی وجہ سے اس کے فضل اقدمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لاہور سے جس ترجمہ کو مکمل کہہ کے شائع کیا گیا ہے اسے مکمل کہنا واقع کے خلاف ہے اور پھر اس کا پہلا حصہ جو خطباتِ امیر المومنینؑ پر مشتمل ہے، اس میں بے احتیاطیوں کا یہ عالم ہے کہ جو شخص بھی اصل کتاب کو سمجھ سکتا ہے وہ اُس ترجمے کو دیکھے گا تو اس کی جبین پر شکن آئے بغیر نہ رہے گی اور مزید یہ کہ ادّعائے دیانت کے باوجود یہ روش بھی نظر آتی ہے کہ جہاں کسی جملہ کے متعلق یہ خیال ہوا کہ اس سے کسی کی شخصیت مجروح ہوتی ہے تو سرے سے اس کا ترجمہ ہی غائب ہے۔ یہ مانا کہ اصل کلام کی خصوصیات ترجمہ میں منتقل نہیں کی جا سکتیں اور آئینہ کے بالمقابل پھول رکھ کر اس کی پتیوں کی تہ میں لپٹی ہوئی خوشبو کی عکاسی ناممکن ہے کہ کوئی پھول کے عکس سے خوشبو سونگھنے کی توقع کرنے لگے، مگر پھول کی شکل و صورت اور رنگ روپ بھی نظر نہ آئے تو اس کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے کہ آئینہ ہی دھندلا ہے۔
ان حالات میں، مَیں نے نہج البلاغہ کا ترجمہ پیش کرنے کی جرأت کی ہے۔ ترجمہ جیسا کچھ بھی ہے آپ کے سامنے ہے۔ میری کوشش تو یہی رہی ہے کہ میرے امکانی حدود تک ترجمہ صحیح ہو، لیکن میری کوشش کہاں تک بار آور ہوئی ہے اس کا اندازہ اربابِ علم ہی کر سکتے ہیں۔ میرے صحیح سمجھنے یا کہنے سے کیا ہوتا ہے۔ یہ تو ممکن ہی نہیں ہے کہ ترجمہ میں اصل کی لطافت و بلاغت اور علوی نطق و فصاحت کے جوہر کو سمویا جا سکے تاہم:
آبِ دريا را اگر نتوان كشيدهم به قدر تشنگی بايد چشيد!
جو ہو سکتا ہے وہ ظاہر الفاظ کا ایک حد تک صحیح ترجمہ ہے۔ چنانچہ اس کے لئے میں نے کوئی کوشش اٹھا نہیں رکھی۔ اب اس سے اگر تھوڑی بہت جھلک بھی کلامِ امام کی سامنے آ جائے تو وہی بہت ہے:
گر بمعنی نہ رسی جلوۂ صورت چہ کم است
ترجمہ و حواشی کے سلسلے میں تاریخ و سیر و رجال کی کتابوں کے علاوہ نہج البلاغہ کے متعدد تراجم و شروح بھی میرے پیش نظر رہے ہیں جن کا تفصیلی تذکرہ ضروری نہیں ہے۔ البتہ جن شروح سے میں نے خصوصیت کے ساتھ فائدہ اٹھایا ہے اور جا بجا ان کا حوالہ دے دیا ہے، ان کا ذکر کیا جاتا ہے:
۱۔ ’’اعلام نہج البلاغۃ‘‘
اس کے مصنف علی ابن الناصر ہیں جو جناب سیّد رضیؒ کے معاصر تھے۔ یہ نہج البلاغہ کی سب سے پہلی شرح ہے۔ گو مختصر ہے، لیکن حل لغات و تشریح مطالب کے لحاظ سے بہت بلند پایہ ہے۔ اس کا قلمی نسخہ لکھنؤ میں کتب خانہ جناب سیّد تقی صاحب اعلی اللہ مقامہ میں موجود ہے۔ وہیں سے اس کو حاصل کر کے دیکھا۔
۲۔ ’’شرح ابن میثم‘‘
شیخ کمال الدین میثم ابن علی ابن میثم بحرانی متوفی ۶۷۹ ہجری کی تصنیف ہے جو علمائے امامیہ میں بڑی بلند شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی شرح معنی آفرینی و دقیقہ سنجی کے اعتبار سے بہت شہرت رکھتی ہے۔
۳۔ ’’شرح ابن ابی الحدید‘
ابو حامد عبد الحمید ابن ہبۃ اللہ معروف بہ ’’ابن ابی الحدید‘‘ مدائنی بغدادی، متوفی ۶۵۵ ہجری کی تصنیف ہے۔ یہ علمائے معتزلہ میں سے تھے۔ ان کی شرح شہرۂ آفاق ہے اور اہم مطالب پر مشتمل ہے اور مصر و ایران میں طبع ہو چکی ہے۔
۴۔ ’’دُرّۂ نجفیہ‘‘
الحاج میرزا ابراہیم خوئی شہید ۱۳۲۵ ہجری کی تصنیف ہے۔ مشہور و متداول شرح ہے۔ شرح ابن میثم سے متاثر ہو کر لکھی ہے اور اس کے علمی مطالب کو اپنی کتاب میں ’’قال الفاضل‘‘ کہہ کر درج کرتے ہیں اور کہیں کہیں پر اُن کے نقطۂ نظر سے اختلاف بھی کیا ہے۔ اس میں لغوی تشریحات بڑی وضاحت سے درج ہیں۔
۵۔ ’’منہاج البراعۃ‘‘
سیّد حبیب اللہ خوئی متوفیٰ حدود ۱۳۲۶ ہجری کی تصنیف ہے۔ یہ شرح بہت بسیط اور تفصیلی واقعات پر مشتمل ہے۔ اکثر مواقع پر ابن ابی الحدید سے اُلجھے ہیں اور کہیں کہیں ابن میثم پر تنقید بھی کی ہے۔ شرح عربی میں ہے اور فارسی زبان میں ترجمہ بھی ساتھ ساتھ ہے۔
تشکر و امتنان
میں اپنے بزرگ و محترم حضرت سیّد العلماء دام ظلہ کا صمیم قلب سے شکر گزار ہوں، جنہوں نے میری عرضداشت پر ترجمہ و حواشی کے بیشتر اجزا سماعت فرمانے کے بعد اس پر ایک بسیط و محققانہ مقدمہ تحریر فرمایا اور مختلف موارد پر اپنے زرّیں مشوروں سے رہنمائی فرمائی۔ خداوند عالم آپ کے فیوض و برکات کو تا دیر باقی و برقرار رکھے۔
الاحقر المذنب
جعفر حسین
عفی اللہ عنہ